ایک دن، جس نے دنیا ہی تبدیل کر دی
11 ستمبر 2013بارہ سال بعد یوں نظر آتا ہے کہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ ساری دنیا کے مصائب کا ذمہ دار امریکا کو سمجھا جاتا ہے۔ تاریخ کے بدترین دہشت گردانہ حملے کے بارہ برس بعد بہت سی کتابیں اور تحقیقی مقالے یہ ثابت کرنے کے لیے لکھے جا رہے ہیں کہ نائن الیون کوئی ایسا دن نہیں تھا، جس نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہو۔ اس سانحے کو صرف ایک تاریخی واقعہ قرار دینا نفسیاتی طور پر تو ٹھیک ہو سکتا ہے، لیکن سیاسی اور اخلاقی طور پر یہ ایک غیر منصفانہ فعل ہے۔
گیارہ ستمبر2001ء نے دنیا کو، جس قدر تبدیل کیا ہے، ایسا گزشتہ کئی دہائیوں میں نہیں ہوا۔ یہ دن ایک انتہائی اہم موڑ ہے، جس کی گہرائیوں میں دنیا کے اخلاقی اور سیاسی نظریات ڈوب کر رہ گئے ہیں۔ اس دن کے بعد پیدا ہونے والے خلاء کو ابھی تک پُر نہیں کیا جا سکا ہے۔
یہ مغرب کے لئے خاص طور پر سچ ہے۔ گزشتہ بارہ سالوں میں مغربی ممالک دہشت گردی اور اس کے حامیوں سے نمٹنے کے لیے واضح تصورات اور منصوبہ بندی پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال جرمنی میں ہونے والے وہ بحث ومباحثے بھی ہیں، جن میں اس موضوع پر بحث ہوتی رہی کہ اسامہ بن لادن، جس نے مذہب اور کلچر کا غلط استعمال کیا، کو قتل کرنا کس طرح بین الاقوامی قانون کے عین مطابق بنایا جا سکتا ہے۔ ان مباحثوں سے یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نائن الیون کے حملوں کے بعد مغربی اقدار کس قدر تبدیل ہوئی ہیں۔
جارج ڈبلیو بش جونیئر، جن کو یقینی طور پر امریکا کے بہترین صدور میں شمار نہیں کیا جا سکتا، کا ان حملوں کے دو روز بعد کہنا تھا، ’’ہم آزادی اور تمام اچھی اقدار کا دفاع کریں گے۔‘‘
یہ سادہ لیکن انتہائی اہم جملہ اب گوانتانامو، ابوغریب اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مارے جانے والے ہزاروں انسانوں کی لاشوں کے نیچے دب کر رہ گیا ہے۔ سابق امریکی صدر کا یہ موقف اب ایک داغدار کلنک کے سوا کچھ بھی نہیں رہا۔ یہ فقرہ نہ صرف نائین الیون کے متاثرین کے مذاق اڑانے کا موجب بنا ہے بلکہ اس نے ظالم اور مظلوم کے کردار کو بھی الٹ کر رکھ دیا ہے۔
دوسری جانب اسی فقرے کے ناقابل واپسی نتائج سامنے آئے ہیں۔ افغانستان اب جنونی انتہا پسندوں کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد عراق جمہوریت کے راستے پر گامزن ہے اور مشرق وسطیٰ کے انقلابات جمہوریت کے حق میں مسلسل دہرائے جانے والے بیانات کا نتیجہ ہیں۔
لیکن اس کے برعکس دہشت گردی ناقابل قبول ہے اور ’طاقت کی متبادل زبان‘ کے طور پر بھی اسے منظور نہیں کیا جانا چاہیے جیسا کہ اکثر لوگوں کی طرف سے اس کی تشریح کی جاتی ہے۔ ڈوئچے ویلے کی نائن الیون سے متعلقہ خصوصی رپورٹیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ نائن الیون کے بعد لوگوں کی زندگیوں اور مختلف علاقوں میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔