بان کی مون کا دوبارہ انتخاب: ڈوئچے ویلے کا تبصرہ
22 جون 2011اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بان کی مون کو دوسری بار سیکرٹری جنرل کے عہدے کے لیے منتخب کر لیا ہے۔ بان کی مون نے اقوام متحدہ کے 192 ممالک کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ اس کیریئر سفارتکار نے اپنے عہدے کی پہلی مدت کے دوران سبھی کو، خاص طور سے سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کو ہمیشہ صحیح اور حق بجانب قرار دیا اور کسی کے لیے بھی دشواریاں پیدا نہیں کیں۔ انہوں نے نہایت مشکل لمحات میں بھی اقوام متحدہ کو پریشانیوں سے نکال لیا۔
ہیٹی ہو، پاکستان یا میانمار، ان ممالک میں آنے والی ناگہانی آفات کے فوراً بعد اقوام متحدہ ہر جگہ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد پہنچانے کے لیے موجود رہا۔ اس عالمی ادارے نے نہتے انسانوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا اور متعدد غیر سرکاری اداروں کے ساتھ پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کام جاری رکھا۔ بان کی مون نے وقت کے دھارے کا اندازہ لگاتے ہوئے اپنے ادارے میں خواتین سے متعلق ایک ذیلی ادارہ بھی قائم کیا۔ اس کے اثرات ترقی پذیر معاشروں میں خواتین کو انسانی عظمت اور وقار کے مطابق مقام دلانے کی صورت میں مرتب ہوئے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے بان کی مون نے ہر اُس ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف آواز بلند کی، جہاں ان حقوق کو پیروں تلے روندا جا رہا تھا۔ انہوں نے تحفظ ماحول اور تخفیف اسلحہ سے متعلق نہ صرف اہم پیش قدمیاں شروع کروائیں بلکہ ان اہم موضوعات کو عالمی سطح پر زیر بحث آنے والے موضوعات کے ایجنڈے میں بھی شامل رکھا۔ یہ سب کچھ بان کی مون کی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے پہلی مدت کا ایک اچھا میزانیہ ہے۔
تاہم چند دیگر شعبوں میں بان کی مون نئی قوت محرکہ اور فیصلوں کو منوانے کے ضمن میں کمزور بھی ثابت ہوئے۔ اپنے پیش رو کے برعکس انہوں نے کبھی امریکہ کے سامنے کسی موقف پر ڈٹے رہنے کی ہمت نہیں کی۔ مثلاً عالمگیریت کے غریب ترین معاشروں پر اثرات جیسے اہم موضوعات کو اقوام متحدہ میں زیر بحث لانے کی کوشش۔ بان کی مون روس اور چین کے ساتھ بگاڑ نہیں لینا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے شام میں حکومت مخالف مظاہرین کے ساتھ ہونے والے بہیمانہ سلوک کی مذمت کرتے ہوئے دمشق حکومت کے خلاف پابندیوں میں ساتھ دینے کے لیے ان دونوں بڑی طاقتوں پر زور نہیں ڈالا۔ اس اقدام سے لیبیا میں اقوام متحدہ کی مداخلت اور وہاں کی حکومت کے خلاف ایکشن کا جواز کافی حد تک غیر واضح ہو گیا ہے۔ 2015ء تک اقوام متحدہ کے طے شدہ ہزاریہ اہداف کا حصول بھی بان کی مون کی قیادت میں زیادہ ممکن نظر نہیں آتا۔
کسی بھی مدمقابل کی نامزدگی کے بغیر بان کی مون کا دوبارہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے منتخب ہونا اور اس بارے میں سلامتی کونسل میں صلاح مشوروں کا نہ ہونا اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا کہ اس عالمی ادارے میں جمہوری طریقے سے رائے دہی کا رجحان پایا جاتا ہے۔
تبصرہ: دانیئل شیشکےوِٹس / ترجمہ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک