بریگزٹ: لاکھوں برٹش شہریوں کا آئرش پاسپورٹ کے حصول کا فیصلہ
1 جنوری 2019برطانیہ کے ہمسایہ ملک جمہوریہ آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج یا بریگزٹ کا عمل طے شدہ پروگرام کے مطابق مارچ کے آخر تک مکمل ہو جائے گا اور ایسے برطانوی باشندوں کی تعداد کئی ملین ہے، جو اس وقت ذہنی طور پر اس لیے پریشان ہیں کہ بریگزٹ کے بعد وہ کئی ایسے فوائد اور مراعات سے محروم ہو جائیں گے، جو انہیں یونین کے شہریوں کے طور پر عشروں سے حاصل رہے ہیں۔
ان حالات میں یورپ کے کئی ممالک میں یہ رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے کہ جو برطانوی شہری اپنے وطن سے باہر کسی دوسرے رکن ملک میں آباد ہیں، ان میں سے بہت سے اب اپنے لیے میزبان یورپی ملک کی شہریت کی درخواستیں دینے لگے ہیں۔ یہ برطانوی باشندے چاہتے ہیں کہ وہ آئندہ بھی یورپی یونین ہی کے شہری رہیں۔
گڈ بائے برطانیہ، ہیلو آئرلینڈ
خود برطانیہ کی مقامی آبادی میں سے بھی بہت سے افراد اپنے لیے آئرلینڈ کی شہریت کے خواہش مند ہے۔ جمہوریہ آئرلینڈ کے وزیر خارجہ نے کل اکتیس دسمبر پیر کے روز بتایا کہ سال 2018ء میں ایک لاکھ 83 ہزار سے زائد برطانوی شہریوں نے آئرلینڈ کی شہریت اور آئرش پاسپورٹ کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ یہ سالانہ بنیادوں پر آئرلینڈ کی شہریت حاصل کرنے کے خواہش مند برطانوی باشندوں کی تعداد کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔
ایسی درخواستیں دینے والے سبھی برطانوی شہری ایسے باشندے ہیں، جن کا پہلے ہی کسی نہ کسی صورت میں شمالی آئر لینڈ یا جمہوریہ آئرلینڈ سے تعلق موجود ہے۔ ان افراد کو آئرش پاسپورٹوں کے لیے اپنی درخواستیں جمع کرانے کی تحریک آئرلینڈ کے ایک قانون نے دی۔ اس قانون کے مطابق ہر وہ برطانوی شہری جو شمالی آئر لینڈ یا جمہوریہ آئرلینڈ میں پیدا ہوا ہو، یا جس کے والدین یا ان کے بھی والدین کا تعلق آئرلینڈ سے رہا ہو، وہ اپنے لیے آئرش شہریت کی درخواست دے سکتا ہے۔
بریگزٹ سے جڑے خدشات
برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اپنے ملک کے اخراج کا فیصلہ 2016ء میں ہونے والے ایک بریگزٹ ریفرنڈم میں معمولی اکثریت سے کیا تھا۔ اب جو برطانوی باشندے آئرلینڈ یا دیگر یورپی ممالک کی شہریت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کے اس اقدام کا سبب یہ بھی ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ 29 مارچ کو، جب برطانیہ کے اخراج کے بعد یورپی یونین کے رکن ممالک کی تعداد 27 رہ جائے گی، ان کے یورپی یونین میں رہائش اختیار کرنے یا کام کرنے کے حقوق محدود ہو جائیں گے۔
اس بارے میں آئرلینڈ کے وزیر خارجہ سائمن کووینی نے ڈبلن میں کہا کہ 2018ء میں آئرش شہریت اختیار کرنے والے برطانوی باشندوں کی تعداد میں اس سے ایک سال پہلے کے مقابلے میں 22 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ساتھ ہی کووینی نے یہ بھی کہا، ’’آئرش پاسپورٹ ایک بہت قیمتی دستاویز ہے۔‘‘
جرمنی میں بھی برطانوی شہریوں کی ریکارڈ درخواستیں
آئرلینڈ ہی نہیں بلکہ یورپی یونین کے رکن دیگر ممالک میں بھی، جہاں کے سماجی اور اقتصادی حالات بہت اچھے ہیں، بڑی تعداد میں وہاں مقیم برٹش شہری مقامی شہریت کے لیے درخواستیں دے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی مثال جرمنی کی ہے، جو یورپی یونین کی سب سے بڑی معیشت اور اس بلاک کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بھی ہے۔
2016ء کے بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد سے جرمنی میں مقیم برطانوی شہریوں کی طرف سے جرمن شہریت کے لیے دی گئی درخواستوں کی تعداد میں بھی ریکارڈ حد تک اضافہ ہوا ہے۔ 2017ء میں جرمنی میں قریب ساڑھے سات ہزار برطانوی شہریوں نے جرمن شہریت کے لیے درخواستیں دیں۔
م م / ا ا / اے ایف پی