بغداد میں پھر تشدد، درجنوں افراد ہلاک
17 مئی 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عراقی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ سترہ مئی بروز منگل دارالحکومت بغداد کے علاقے الشعب میں ہونے والے یہ حملے اب تک کی خونریز ترین کارروائی ہیں۔ شمالی بغداد کا یہ شیعہ اکثریتی علاقہ عمومی طور پر پرسکون قرار دیا جاتا ہے۔
عراقی وزیر داخلہ سعد مان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس علاقے میں ایک خاتون خود کش حملہ آور نے یہ کارروائی کی، جس کے نتیجے میں کم از کم اڑتیس افراد ہلاک جبکہ اسّی سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔
بغداد پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بعد ازاں میڈیا کو بتایا کہ اس خودکش حملے کے کچھ دیر بعد ہی ایک کار بم دھماکا بھی ہوا۔ بتایا گیا ہے کہ اس کار بم حملے میں بھی چھ افراد ہلاک ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق یہ کار ایک مارکیٹ کے قریب ہی کھڑی کی گئی تھی، جس میں دھماکا خیز مواد رکھا گیا تھا۔
فوری طور پر ان پرتشدد کارروائیوں کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی۔ تاہم انتہا پسند گروہ داعش ماضی میں اس طرح کے متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔ ایسے ہی حملوں میں گزشتہ سات دنوں کے دوران عراق بھر میں سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
عراقی فورسز مقامی ملیشیا گروہوں اور امریکی عسکری اتحاد کے تعاون سے داعش کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بغداد حکومت کا کہنا ہے کہ حالیہ عرصے میں متعدد اہم مقامات پر ان جہادیوں کو پسپا بھی کر دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق سنی انتہا پسند گروہ داعش عراق میں بالخصوص شیعہ علاقوں پر حملے کرتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان جہادیوں کی کوشش ہے کہ عراق کی شیعہ حکومت کو ناکام بنایا جائے۔ عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی کے بقول یہ جہادی عراق کی سیاسی صورتحال میں جمود کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
دوسری طرف تاجی کے حکام نے بتایا ہے کہ اس گیس فیکٹری کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے، جہاں انہی جہادیوں نے حملہ کرتے ہوئے گیارہ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ ہفتے کے دن کی گئی اس کارروائی میں قدرتی گیس کی اس فیکٹری کے گیس ذخیرہ کرنے والے تین پلانٹ بھی تباہ کر دیے گئے تھے۔