بغداد کے قریب کار بم حملہ، دو درجن کے قریب زائرین ہلاک
30 اپریل 2016بغداد کے نواحی علاقے میں یہ کار بم خودکش حملہ پیدل جانے والے اُن زائرین کے قافلے پر کیا گیا، جو شیعوں کے ساتویں امام موسیٰ کاظم کی سالانہ برسی کے سلسلے میں مسجد کاظمین کی جانب رواں دواں تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔
یہ مسجد عراقی دارالحکومت کے نواح میں نہروان کے علاقے میں واقع ہے۔ اِس مسجد کے پاس ماضی میں بھی تواتر سے شیعہ زائرین کو دہشت گردانہ حملوں میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ شام اور عراق میں سرگرم دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے اِس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُس کے ایک خودکش حملہ آور نے کار بم کو اڑایا تھا۔
حملے اور ہلاکتوں کے حوالے سے متضاد خبریں سامنے آئی ہیں۔ ایک پولیس اہلکار نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ کار بم حملہ امام کے روضے کی جانب جانے والی سڑک پر پیدل چلنے والے ایک قافلے کے قریب کیا گیا جبکہ ایک سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ یہ حملہ ایک اوپن مارکیٹ میں کیا گیا۔۔
مبصرین کے مطابق اوپن مارکیٹ کے حوالے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سڑک کنارے قطار میں کھڑے وہ ٹھیلے ہو سکتے ہیں، جن پر زائرین کے لیے سستے سامان اور اشیائے خورد و نوش رکھا گیا ہوتا ہے۔ عراق کے طول و عرض سے ہزاروں زوار پا پیادہ چلتے ہوئے امام موسیٰ کاظم کے مزار تک پہنچتے ہیں۔
گزشتہ برس بھی برسی کے موقع پر مسجد الکاظمین جانے والے زائرین کو نشانہ بنایا گیا تھا اور تب ایک درجن سے زائد زوار ہلاک ہوئے تھے۔ یہ امر اہم ہے کہ سن 2014 سے عسکریت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے شام اور عراق کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر کے اپنی خود ساختہ خلافت قائم کر رکھی ہے۔ یہ علاقہ دارالحکومت بغداد کے شمال اور مغرب میں واقع ہے۔ ان علاقوں سے جہادی اور خود کش حملہ آور شیعہ بستیوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب عراق کے دارالحکومت میں آج اصلاحات کے حق میں سینکڑوں افراد ایک مظاہرے میں شریک تھے۔ یہ مظاہرہ انتہائی سکیورٹی والے علاقے گرین زون کے قریب تحریر چوک کیا گیا تھا۔
دوسری جانب پارلیمنٹ وزیراعظم حیدر العبادی کی تجویز کردہ ٹیکنو کریٹس پر مشتمل کابینہ کی منظوری نہیں دے سکی ہے۔ العبادی کو اصلاحات متعارف کرانے اور انسداد کرپشن کے لیے شدید عوامی دباؤ کا سامنا ہے۔
پارلیمنٹ کے کئی اراکین بھی صدر، وزیراعظم اور اسپیکر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیے ہوئے ہیں۔ اس سیاسی اکھاڑ پچھاڑ پر امریکا اور اقوام متحدہ کو گہری تشویش لاحق ہے۔