بلوچستان میں شدت پسندوں کے خلاف ’جامع‘ فوجی آپریشن کی منظوری
20 نومبر 2024وزیر اعظم شہباز شریف نے منگل کے روز اسلام آباد میں حکومتی سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف آپریشن شروع کرنے کی منظوری دی۔ اجلاس میں وفاقی کابینہ، صوبائی وزرائے اعلیٰ، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، اور اعلیٰ حکومتی حکام نے شرکت کی۔
حکومت بلوچستان میں دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام کیوں؟
میٹنگ کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق "بیرونی طاقتوں کی ایما پر عدم تحفظ پیدا کر کے پاکستان کی معاشی ترقی کو روکنے کے لیے معصوم شہریوں اور غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف فوجی آپریشن کی منظوری دی گئی۔"
بیان مین کہا گیا ہے کہ تنظیموں بشمول مجید بریگیڈ، بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) اور بلوچ راجی آجوہی سنگر (بی آر اے ایس) کے خلاف فوجی آپریشن کی منظوری دی گئی۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا ہے کی آپریشن کب شروع ہو گا۔
کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش حملہ، متعدد افراد ہلاک اور زخمی
بیان میں بتایا گیا کہ اجلاس نے 'وژن عزم استحکام‘ کے فریم ورک کے تحت قومی انسداد دہشت گردی مہم کو دوبارہ متحرک کرنے کے لیے پارٹی خطوط سے اوپر اٹھ کر سیاسی حمایت اور مکمل قومی اتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیا۔
اجلاس نے نیکٹا کی بحالی اور قومی اور صوبائی انٹیلیجنس فیوژن اور تھریٹ اسسمنٹ سینٹر کے قیام پر بھی اتفاق کیا۔
چین کا پاکستان میں اپنے سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی پر زور
وزیر اعظم ہاؤس سے جاری اعلامیہ میں بتایا گیا کہ 'کمیٹی نے دہشت گردی سمیت پاکستان کو درپیش کثیر جہتی چیلنجز سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے ایک متحد سیاسی آواز اور ایک مربوط قومی بیانیے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔'
'اور کوئی چوائس نہیں ہے'، شہباز
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ 'اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی ہے اور ان کی حکومت کی پہلی، دوسری اور حتیٰ کہ تیسری ترجیح بھی دہشت گردی کا خاتمہ ہی ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا 'ہم نے ملکی ترقی کو آگے لے کر جانا ہے تو سیاسی اتحاد قائم کرنا ہو گا۔ پورا پاکستان خوفزدہ ہے کہ میرے بچے یا میری بیٹی کے ساتھ کیا ہو گا۔'
انہوں نے مزید کہا، "ہمارے پاس کوئی چوائس نہیں کہ سب سے پہلے دہشت گردی کا سر کچلیں۔ ہمارا مشن نمبر ون ہے دہشت گردی کا خاتمہ، نمبر دو ہے دہشت گردی کا خاتمہ، نمبر تین ہے دہشتگردی کا خاتمہ۔"
خیبر پختونخوا میں الگ الگ حملوں میں 18 افراد ہلاک
خیبر پختونخوا میں منگل کو ایک خودکش حملے میں 10 فوجی ہلاک ہو گئے۔ ایک انٹیلی جنس ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایک روز قبل ہونے والی ایک الگ جھڑپ کے بعد افغانستان کی سرحد سے متصل اسی علاقے میں آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ایک انٹیلی جنس اہلکار نے منگل کو ہونے والے حملے کے بارے میں بتایا کہ "ایک مشتبہ خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی کو چیک پوائنٹ کے قریب دھماکے سے اڑا دیا، جس کے بعد اس کے ساتھیوں نے فائرنگ کر دی۔"
انہوں نے کہا کہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اس حملے میں 10 افراد ہلاک اور سات زخمی ہوئے ہیں۔
حافظ گل بہادر مسلح گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
یرغمال پولیس اہلکار رہا
بنوں میں ایک سکیورٹی چیک پوائنٹ کے قریب پیر کے روز جن سات پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنایا گیا تھا، انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ان کی رہائی ایک جرگہ اور اغوا کاروں کے درمیان مذاکرات کے بعد عمل میں آئی۔
سینئر پولیس اہلکار محمد ضیاء الدین نے اے ایف پی کو بتایا کہ "تمام مغوی پولیس اہلکاروں کو مقامی عمائدین کی عسکریت پسندوں کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔"
انہوں نے مزید تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کردیا۔
ج ا ⁄ ص ز (اے پی، ای ایف پی)