’بلوچستان میں صورت حال صرف ایک دن میں تو خراب نہیں ہوئی‘
27 اگست 2024پاکستانی صوبہ بلوچستان طویل عرصے سے شورش زدہ ہے۔ اس کی تازہ ترین خونریز مثال وہ حملے ہیں، جن کا آغاز گزشتہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب ہوا۔
ان مسلح حملوں اور ان کے بعد سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں میں کم از کم 70 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ پاکستانی فوج کے مطابق ہلاک شدگان میں 14 سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں، جب کہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے کی گئی جوابی کارروائیوں میں 21 دہشت گرد بھی مارے گئے۔
بلوچستان میں ان حملوں کی ذمہ داری مسلح لیکن ممنوعہ علیحدگی پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ حملے اس کے آپریشن ''ہیروف‘‘ کا حصہ تھے، جس کے دوران پولیس اسٹیشنوں، ریلوے لائنوں اور شاہراہوں پر مسلح حملے کیے گئے۔
بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی جانب سے کیے گئے یہ حملے صوبے میں گزشتہ کئی برسوں کی سب سے زیادہ وسیع اور ہلاکت خیز پیمانے پر کی جانے والی عسکریت پسندانہ کارروائیاں تھے۔
کوئٹہ میں تعینات ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار ہدایت الرحمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان حملوں میں بڑے پیمانے پر نجی اور سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچا۔
’بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر تحفظات‘
پاکستان میں 'انسٹیٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز‘ سے منسلک عبداللہ خان نے ان حملوں کے بعد ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ''علیحدگی پسندوں کی تحریک اب تقریباﹰ ایک نتیجہ خیز مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔‘‘
عبداللہ خان کے بقول بلوچستان میں ''علیحدگی پسندی کی تحریک اس لیے زور پکڑتی جا رہی ہے کیونکہ ریاستی سطح پر وہاں غیر ملکی سرمایہ کاری اور دیگر امور کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات کو دور نہیں کیا جا رہا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ بلوچ مسلح تنظیمیں اس صوبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو ''بلوچ قوم کے مفادات کے منافی سمجھتی ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''صوبے میں ماضی میں چینی انجینیئرز پر ہونے والے حملے اسی تسلسل کا حصہ ہیں اور ان تمام حملوں کے ذریعے بلوچ عسکریت پسند گروہ ریاست پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔‘‘
قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے بلوچستان میں علیحدگی کی کوششیں دہائیوں سے جاری ہیں۔ وہاں ہمسایہ ملک چین کی قیادت میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت کئی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، جن میں گوادر میں ایک تزویراتی بندرگاہ بھی شامل ہے۔ ساتھ ہی اس صوبے میں سونے اور تانبے کی کان کنی کے منصوبوں پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔
عبد اللہ خان نے اس بات کا ذکر بھی کیا کہ بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں کو ''صوبے کے اسٹریٹیجک مفادات کے خلاف قرار دیتی ہیں۔‘‘
تاہم فرق یہ ہے کہ بلوچ قوم پسند سیاسی جماعتیں اور بلوچستان کے مقامی باشندوں کی اکثریت ان منصوبوں کے خلاف سیاسی اور پر امن طریقے سے احتجاج کرتے ہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر ساجد ترین نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''بلوچستان ہمیشہ سے ہی محرومیوں کا شکار رہا ہے۔ ریاستی اقدامات سے صوبے کے عوام مطمئن نہیں ہیں اور خلاف ضابطہ کیے گئے اقدامات کی وجہ سے صوبے میں بدامنی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘
تاہم انہوں نے یہ واضح نہ کیا کہ وہ کن حکومتی اقدامات کی بات کر رہے تھے۔
ساجد ترین کا کہنا تھا، ''ترقی کے نام پر صوبے کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ جب تک مقامی آبادی کے تحفظات دور نہیں ہوتے، یہ صورتحال بہتر نہیں ہو سکتی۔‘‘
بلوچستان کے سابق گورنر ملک عبدالولی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''بلوچستان میں بدامنی کی حالیہ لہر سے صوبے کا ہر طبقہ متاثر ہوا ہے۔ یہ ساری صورت حال صرف ایک دن میں تو خراب نہیں ہوئی۔ اگر حالات میں بہتری کے لیے دور اندیشی پر مبنی فیصلے کیے جاتے، تو آج صوبے کی صورت حال اس قدر خراب نہ ہوتی۔ بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر سیاسی قائدین کے تحفظات مرکز نے ہمیشہ نظر انداز کیے ہیں۔‘‘
ان کے مطابق، ''سیاسی استحکام کے بغیر بلوچستان میں ریاستی بالادستی بحال نہیں ہو سکتی ۔‘‘
ملک عبدالولی کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں ''داخلی سلامتی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت کو خود پر عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے کام کرنا ہو گا۔ بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں کے عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان مقامی باشندوں کی جبری گم شدگیوں، استحصالی منصوبوں اور دیگر خدشات کی وجہ سے دوریاں دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہیں۔‘‘