بلوچستان میں کومبنگ آپریشن شروع، پچیس مشتبہ افراد گرفتار
9 اگست 2016کوئٹہ میں تعینات کاؤنٹر ٹیررزم ونگ کے ایک سینئر اہلکار محمد عمران کے بقول آج صبح سے جاری کومبنگ آپریشن میں اب تک 25 مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’بلوچستان میں کومبنگ آپریشن دہشت گردی کی حالیہ لہر کے تناظر میں شروع کیا گیا ہے۔ اس آپریشن میں پولیس، ایف سی، حساس اداروں اور کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔ خصوصی آپریشن میں فوجی ہیلی کاپٹروں کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘
محمد عمران نے بتایا کہ کومپنگ آپریشن کے پہلے مرحلے میں ان علاقوں میں کارروائی کی جا رہی ہے جو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں اور وہاں تسلسل کے ساتھ بد امنی کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ’’کومبنگ آپریشن کے دوران اب تک جو عسکریت پسند گرفتار کئے گئے ہیں ان کا تعلق مختلف کالعدم تنظیموں سے ہے۔ یہ تنظیمیں بلوچستان کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں میں بھی بد امنی میں ملوث رہی ہیں، جن علاقوں میں عسکریت پسند روپوش ہیں، وہاں کارروائی سے قبل مقامی لوگوں کو بھی اعتماد میں لیا جا رہا ہے تاکہ عسکریت پسند عام لوگوں کو استعمال کرتے ہوئے روپوش ہونے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔‘‘
کوئٹہ حملے کے تناظر میں تحقیقات کے لئے قائم ہونے والی ایک تحقیاتی ٹیم میں شامل انٹیلی جنس اہلکار ذیشان اسد کے بقول کومبنگ آپریشن کے دوران گرفتار ہونے والے عسکریت پسندوں سے سانحہ کوئٹہ کے تناطر میں قائم کی گئی خصوصی ٹیم تحقیقات کرے گی۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اس اہلکار نے کہا، ’’صوبائی حکومت نے دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی تحقیقات کے لئے ایک اعلیٰ سطحی ٹیم تشکیل دی ہے۔ اس ٹیم میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شامل ہیں۔ کومبنگ آپریشن کے دوران جن مشتبہ عسکریت پسندوں کو آج کوئٹہ، مستونگ اور قلات سے اب تک گرفتار کیا گیا ہے ان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ ان گروپوں کے خاتمے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں جو کہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں۔
ذیشان اسد کا کہنا تھا کہ اس آپریشن میں شامل ٹیموں کو ہر حوالے سے مکمل طور پر با اختیار بنایا گیا ہے تاکہ عسکریت پسندوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی عمل میں لائی جا سکے ۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے کہا ہے کہ بلوچستان سے عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے حکومت پر عزم ہے اور کومبنگ آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک آخری شدت پسند کو ختم نہیں کیا جاتا۔
کوئٹہ سول ہسپتال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ’’ قیام امن پر ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ دشمن ہمیں اقتصادی طور پر ناکام بنانا چاہتا ہے۔ گزشتہ روز یہاں جو خودکش حملہ کیا گیا وہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کی ایک سازش کا حصہ ہے، جسے ہم کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ہمارے حوصلے بلند ہیں اور دہشت گردوں کے سامنے کبھی نہیں جھکیں گے۔‘‘
وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ سرحدی صوبہ ہونے کی وجہ سے افغانستان میں پیدا ہونے والے حالات کے اثرات براہ راست بلوچستان پر پڑ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ’’آج سے صوبے میں جو کومبنگ آپریشن شروع کیا گیا ہے، وہ نتیجہ خیز ثابت ہو گا۔ بزدل دہشت گردوں کو اب کہیں پناہ نہیں ملے گی ہر جگہ انہیں نشانہ بنائیں گے۔کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ بے گناہ لوگوں کے خون سے کھیلنے والے لوگ بچ سکیں گے۔ بہت جلد شدت پسندوں اور ان کے سہولت کاروں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے۔‘‘
نواب ثناء اللہ زہری کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بد امنی پھیلانے والے عناصر امن کے ساتھ ساتھ انسانیت کے بھی دشمن ہیں۔
نیول چیف ایڈمیرل ذکاء اللہ نے بھی آج کوئٹہ کا دورہ کیا اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سے امن و امان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے گفتگو کی۔
دفاعی امور کے سینئر تجزیہ کار جنرل ( ر) طلعت مسعود کے بقول بلوچستان میں شدت پسندوں کے خلاف اگر بلا تفریق کومبنگ آپریشن کیا جائے تو یہ آپریشن نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’اسڑیٹجک طور پر بلوچستان پاکستان کا سب سے اہم صوبہ ہے، جس پر اس وقت کئی اہم عالمی قوتوں کی نظر ہے۔ پاکستان مخالف قوتیں بلوچستان کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانا چاہتی ہیں۔ بلوچستان میں کومبنگ آپریشن کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے حکومت کو پہلے زمینی حقائق کو دیکھنا ہو گا۔ بیک وقت کئی محاذوں پر لڑ کر حکومت اس آپریشن کو کسی بھی طورکامیاب نہیں بنا سکتی۔‘‘
جنرل (ر) طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں آزادی کے لئے بر سر پیکار بلوچ مسلح تنظیمیں اور فرقہ واریت میں ملوث تنظیموں سے نمٹنے کے لئے آپریشن کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر ایک حکمت عملی مرتب کرنے کی بھی بہت ضرورت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا، ’’کسی بھی کارروائی سے قبل صورتحال کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ بلوچستان میں حکومت نےکومبنگ آپریشن سے قبل جامع حکمت عملی مرتب کی ہو گی لیکن سوال یہ ہے کہ اس شورش زدہ صوبے میں عام رہائشی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی جو مضبوط جڑیں قائم ہیں ان پر کس حد تک توجہ دی گئی ہے؟ جن علاقوں میں کومبنگ آپریشن کیا جا رہا ہے وہاں کے سیاسی اور قبائلی عمائدین کو اعتماد میں لینا بہت اہم ہے۔ جب تک عوام کا تعاون حاصل نہیں ہوگا، اس نوعیت کے آپریشن کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘‘