بلین ٹری سونامی، جرمنی کی طرف سے مالی امداد کا وعدہ
17 دسمبر 2021جرمنی کے ترقیاتی بینک کے ایف ڈبلیو کے کنٹری ڈائریکٹر سباستیان یاکوبی اور وفاقی اکنامکس افیئرز ڈویژن کے سیکرٹری میاں اسد حیات الدین نے جمعے کے دن اسلام آباد منعقدہ ایک تقریب میں ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت جرمنی پاکستان کو دس بلین ٹری سونامی کی مہم میں مالی اعانت کے طور پر ساڑھے تیرہ ملین یورو کی رقم مہیا کرے گا۔
یہ رقم خیبر پختونخوا میں جاری دس بلین ٹری سونامی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے اس کے ایک ذیلی منصوبے (بی ٹی اے ایس پی) پر صرف کی جائے گی۔ جرمنی کی وزارت برائے اقتصادی تعاون و ترقی بی ایم زیڈ نے بتایا ہے کہ جرمن ترقیاتی بینک (کے ایف ڈبلیو) کے ذریعے یہ گرانٹ پاکستان کو دی جائے گی۔
بتایا گیا ہے کہ جرمن ترقیاتی امداد کی مدد میں پاکستان کو ملنے والی یہ گرانٹ خیبرپختونخوا کا محکمہ برائے جنگلات، ماحولیات و جنگلی حیات کے تعاون سے خرچ کی جائے گی اور اس منصوبے پر عملدرآمد بھی یہی ادارہ کرے گا۔
اس منصوبے کے تحت جنگلات کے لینڈ اسکیپ کی بحالی کو مؤثر بنیادوں پر مستحکم بنانے کے علاوہ پبلک سروس ڈیلوری کے نظام کو بہتر بنانے اور ادارتی استعداد کاری بھی کی جائے گی۔
مزید برآں ایکو سسٹم کو محفوظ بنانے کی خاطر مقامی سطح پر معیشت کو سہارا دیا جائے گا۔ بتایا گیا ہے اس جرمن مالی امداد سے خیبرپختونخوا کے ایک سو دیہات میں ماحول دوست پالیسی اختیار کرتے ہوئے غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔
اس منصوبے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مقامی لوگوں کو ساتھ ملا کر جنگلات کے تحفظ کے لیے شراکت داری پر مبنی منصوبہ جات بنائے جائیں گے۔ اس منصوبے کی بدولت خواتین کی استعداد کاری بھی ممکن ہو سکے گی اور انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں شامل ہونے کا موقع مل سکے گا۔
اس منصوبے کے تحت ایسے مقامی افراد کی آمدنی کے ذرائع میں پائیدار مواقع پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی، جو اپنے روزگار کے لیے قدرتی وسائل پر انحصار کرتے ہیں۔
تنازعات کی زد میں
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کا دس بلین ٹری سونامی کا منصوبہ تحفظ ماحول کے لیے ایک غیر معمولی منصوبہ قرار دیا جاتا ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر تحفظ ماحولیات کی ان کوششوں کو سراہا جا رہا ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی ڈونرز بھی اس منصوبے میں معاونت کر رہے ہیں۔
اگست سن دو ہزار سترہ میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ اپنے طے شدہ پروگرام کے تحت اہداف حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ عالمی رہنما بھی پاکستان کے اس منصوبے کو قابل ستائش سمجھتے ہیں۔
تاہم یہ منصوبہ بدعنوانی اور انتظامی مسائل کے حوالے سے تنازعات کا شکار بھی رہا ہے۔ اس منصوبے کے حوالے سے مبینہ کرپشن کی وجہ سے قومی احتساب عدالت میں بھی کئی ریفرنس کیسز دائر کیے گئے اور بعد میں واپس لے لیے گئے۔ کرپشن کے الزامات کے علاوہ یہ امر بھی تنقید کا سبب رہا ہے کہ جنگلات لگانے میں سیاسی رسہ کشی کے باعث کئی مقامی آبادیوں کو نقصان بھی ہوا ہے۔
پاکستان کے ایک سابق سرکاری اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ یہ ایک بڑا منصوبہ ہے، جس کی عالمی سطح پر پذیرائی بھی کی جا رہی ہے لیکن کرپشن کے علاوہ سوچے سمجھے بغیر درخت لگانا ایک مسئلہ بھی ہے۔
پاکستان کے محکمہ جنگلات سے ایک طویل عرصے تک وابستہ رہنے والے اس سابق اہلکار نے کہا کہ فطری حل دراصل سست رفتار ہوتے ہیں اور ان کو سمجھنے کی خاطر بہت زیادہ علم اور وقت چاہیے ہوتا ہے۔ لیکن جب ان معاملات میں سیاست ملوث ہو جائے تو لوگ تیزی دکھانے کے چکر میں قدرت کو ہی تباہ کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
انہوں نے بلین ٹری سونامی مہم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جنگلات لگانے کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں میں مقابلہ بازی کی وجہ سے ہوا یہ کہ سرکاری محکموں کو درخت لگانے کے احکامات جاری کرتے ہوئے یہ نہ دیکھا گیا کہ درخت کس علاقے میں لگائے جانے چاہییں ۔ ان کے بقول یوں دباؤ میں آ کر یہ درخت ایسے مقامات پر لگا دیے گئے جہاں انہیں نہیں لگانا چاہیے تھا۔
’بے ہنگم و بے ترتیب درخت لگانا بھی درست نہیں’
اس سابق سرکاری اہلکار نے یہ بھی کہا کہ ایسے مقامات پر بھی درخت لگائے جا رہے ہیں، جو جانوروں کی چراگاہیں ہیں یا ایسے راستے جو خانہ بدوش استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا اس طرح بہت سے مقامی ایسے لوگ روزگار کے مواقع سے محروم ہو رہے ہیں، جن کا انحصار لائیو اسٹاک سے ہے۔ ان کے بقول یہ مقامی لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
بے ترتیب اور جلد بازی میں درخت لگانے کے عمل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ جنگلات لگانا چاہییں لیکن اس کی منصوبہ بندی مناسب طریقے سے کرنا چاہیے تاکہ اس عمل سے مقامی لوگ متاثر نہ ہوں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو بہت سی مقامی ثقافتیں اور خانہ بدوش برادریاں ختم ہو جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ فطرت نے خود فیصلہ کر رکھا ہے کہ کس علاقے میں جنگل ہوں گے اور کہاں صحرا۔ انہوں نے کہا کہ اگر نیچر سے یوں کھیلا گیا کہ جہاں درخت نہیں لگانا، وہاں بھی لگا دیے گئے تو یہ تحفظ ماحولیات نہیں بلکہ قدرتی تباہی کا سبب بنے گا۔
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ جنگلات لگانے کے عمل کی باقاعدہ مانیٹرنگ کی جا رہی ہے اور مقامی ایکو سسٹم اور آبادیوں کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ توقع ہے کہ جرمنی کی مدد سے شروع ہونے والا یہ نیا پراجیکٹ مقامی آبادیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کرے گا۔