بنگلہ دیشی اپوزیشن رہنما کی ڈی ڈبلیو سے بات چیت
1 جنوری 2019تیس دسمبر اتوار کے روز منعقدہ قومی انتخابات کے پیر اکتیس دسمبر کو اعلان کردہ نتائج کے مطابق بنگلہ دیش میں حکمران جماعت عوامی لیگ اور اس کے اتحادی ایک طرح سے پارلیمان کی تمام نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں۔ اس طرح شیخ حسینہ مسلسل تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن جائیں گی۔
حزب اختلاف کی جماعتوں نے انتخابی عمل میں دھاندلی اور جانبداری کے الزامات عائد کیے ہیں۔ اس تناظر میں حزب اختلاف کے ’جاتیا اوکیا فرنٹ‘ نامی اتحاد کے بیاسی سالہ رہنما کمال حسین نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی بات چیت کی۔
سوال: آپ انتخابی نتائج کو کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
حسین: انتخابات کو زیادہ تر نے مسترد کر دیا ہے۔ اگر سب نے نہیں، تو کم از کم حزب اختلاف کی جماعتوں نے۔ یہ نتائج عوامی خواہشات کے عکاس نہیں ہیں۔ یہ نتائج حکومت نے ایک طرح سے تیار کیے ہیں۔ عوام حکومت کی جانب سے ان نام نہاد انتخابات کے نتائج کو خود پر مسلط کیے جانے کے بعد متحد ہو کر مزاحمت کر رہے ہیں تاکہ ان نتائج کو درست کیا جائے۔ شہریوں کے لیے یہ بالکل بھی قابل قبول نہیں کہ وہ اگلے پانچ برسوں تک ایک ایسی حکومت کو برداشت کریں، جو جعلی ووٹوں کی بنیاد پر اقتدار میں آئی ہو۔
سوال: شیخ حسینہ نے انتخابی عمل میں دھاندلی کے تمام الزامات مسترد کر دیے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ انتخابی عمل قدرے پر امن تھا اور ووٹر جوش و جذبے کے ساتھ اس میں شریک ہوئے۔ اس صورت میں حزب اختلاف کا مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟
حسین: حزب اختلاف کی جماعتوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا دیا ہے اور ہم جلد ہی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے ایک مشترکہ منصوبہ بندی پر عمل شروع کریں گے۔ اپوزیشن ان نتائج کو مسترد کرتی ہے اور ایک بڑی تحریک شروع کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے ایک دوسرے سے صلاح و مشورے کر رہی ہیں۔ ہم عوام کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کے لیے جلد ہی ایک باقاعدہ حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اتریں گے۔
سوال: اپوزیشن جماعتیں نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہیں، جسے الیکشن کمیشن کے سربراہ نے مسترد کر دیا ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
حسین: چیف الیکشن کمشنر ہی اس بحران کے اصل ذمہ دار ہیں۔ اتوار کو ہوئے انتخابات میں بے قاعدگیوں کے باوجود انہوں نے انتخابات کو درست قرار دیتے ہوئے نتائج کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد تمام لوگوں کا کمشنر کی غیر جانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کرا سکنے کی صلاحیت پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔
سوال: آپ انسانی حقوق اور آزادی اظہار کی آزادی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟
حسین: ہمیں ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے، جس میں شہری، سیاسی جماعتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شامل ہوں اور جو ملک اور اداروں میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے مصروف عمل ہوں۔
سوال: آپ کے خیال میں موجودہ صورتحال میں عالمی برادری کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟
حسین: مجھے امید ہے کہ بین الاقوامی برادری ملک کی تازہ صورتحال پر غور کرے گی اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے مطابق اسے کسی بھی ایسی حکومت کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے، جو عوامی رضامندی کے بغیر اقتدار میں آئی ہو۔
یہ انٹرویو عرفات الاسلام نے ڈھاکا میں کیا۔