بنگلہ دیش میں انتخابات اور تبدیلی کی خواہش مند نوجوان نسل
6 جنوری 2024بنگلہ دیش میں سات جنوری بروز اتوار منعقد ہونے والے عام انتخابات میں لاکھوں نوجوان ووٹر توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ تقریباﹰ سترہ کروڑ آبادی والے اس جنوب ایشیائی ملک کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 119 ملین رجسٹرڈ ووٹروں میں سے ایک تہائی کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔ ان نوجوان ووٹروں کی اکثریت ملک میں رائج پر تشدد اور معاشرے کو تقسیم کر دینے والی روایتی سیاست کے خاتمے اور جدت کو اپنانے کی خواہاں ہے۔
بنگلہ دیشی سیاست دہائیوں سے دوخواتین یعنی عوامی لیگ کی سربراہ اور موجودہ وزیرا عظم شیخ حسینہ واجد اور حزب اختلاف کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیاء کے گرد گھوم رہی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے موجودہ انتخابات کےبائیکاٹ نے انتخابی عمل کی ساکھ پر سوالات کو جنم دیا ہے اور ایسے میں نوجوان ووٹر بھی ایک مختلف بیانیے کی تلاش میں ہیں۔
اسی صورتحال کے پیش نظر وزیر اعظم شیخ حسینہ اپنی حکومت کے ''ڈیجیٹل بنگلہ دیش‘‘ منصوبے کے ساتھ پہلی بار نوجوان ووٹروں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس منصوبے کے تحت 2041 تک ''سمارٹ بنگلہ دیش‘‘کے قیام اوراس کے علاوہ 2030 تک نوجوانوں کے لیے 15 ملین نئی ملازمتیں پیدا کرنے وعدے بھی کیے گئے ہیں۔
ہفتہ کے روز ڈھاکہ کے باہر ایک بڑی انتخابی ریلی سے خطاب میں حسینہ واجد نے ملکی ترقی کا سفر جاری رکھنے کے لیے نوجوان ووٹروں سے ان کی حمایت طلب کی ۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم دینے والی 26 سالہ شہریما تنجن ارنی نے حسینہ واجد کو ڈیجیٹل مستقبل کے وژن کے ساتھ ایک جرات مند رہنما قرار دیا۔ ارنی نے کہا، ’’وہ ماضی کی اقدار کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک ترقی پسند سوچ رکھتی ہیں۔‘‘
شیخ حسینہ پر پچھلے دو عام انتخابات میں دھاندلی اور حزب اختلاف کو دھمکیاں دینے کے الزامات ہیں جن کی وہ ہمیشہ سے تردید کرتی آئی ہیں۔ وہ اس مرتبہ مسلسل چوتھی بار وزارت عظمیٰ کے عہدےکے لیے امیدوار ہیں اور ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات منعقد کرانے کا وعدہ کرچکی ہیں۔ لیکن ان کے ناقدین کا ان پر اپوزیشن کو دبانے کا الزام ہے، جس کے نتیجے میں وہ ایک جامع انتخابات کے عمل کو کمزور کر رہی ہیں۔
نوجوان رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ وہ معاشرے کو تقسیم کر دینے والے کلچر اور جمہوری حقوق سے متعلق خدشات سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے ایک طالب علم عبدالرحیم رونی نے کہا، ’’میری خواہش ہے کہ بنگلہ دیش کے لوگ آزادانہ طور پر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں، ان کی آزادی اظہار کو یقینی بنایا جائے اور انصاف کا نظام آزادانہ طور پر کام کرے۔‘‘اس طالبعلم کا مزید کہنا تھا، '' میری یہ بھی خواہش ہے کہ کوئی سیاسی جماعت یا حکومت مستقبل میں آئینی اداروں میں مداخلت نہ کرے۔‘‘
بنگلہ دیش کی شماریات کے بیورو کے مطابق بنگلہ دیش کی ایک چوتھائی آبادی 15 سے 29 سال کے عمروں کے افراد پر مشتمل ہے اورتقریباﹰ 119 ملین رجسٹرڈ ووٹروں میں سے ایک تہائی کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔
بنگلہ دیش سٹیزنز پلیٹ فارم برائے ایس ڈی جیزکی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق 18 سے 30 سال کے نوجوانوں کی 69 فی صد بدعنوانی اور اقربا پروری کو بنگلہ دیش کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں ٹیلی کام کی صنعت میں تیزی 1997 میں اس وقت شروع ہوئی جب حسینہ نے موبائل فون سیکٹر کو چلانے کے لیے تین کمپنیوں کو مفت لائسنس جاری کیے تھے۔ بنگلہ دیش ٹیلی کمیونیکیشن ریگولیٹری کمیشن کے مطابق، ملک میں اب 127 ملین کے قریب انٹرنیٹ صارفین ہیں، جن میں تقریباً 114 ملین موبائل انٹرنیٹ صارفین ہیں۔
م ق⁄ ش ر (اے پی)