بنگلہ دیش میں حملوں کی ذمے داری، داعش کے ’جھوٹے دعوے‘
25 مئی 2016ڈھاکا سے بدھ پچیس مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق یہ بات بنگلہ دیشی حکومت کے ایک وزیر نے کہی ہے، جنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس جنوبی ایشیائی ملک میں گزشتہ مہینوں کے دوران جتنے بھی خونریز حملے دیکھنے میں آئے، ان میں سے اکثر کی تفتیش کے دوران ایسے کافی شواہد ملے کہ ان جرائم میں مقامی عسکریت پسند گروہ ملوث تھے۔
کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام اور عراق میں اپنے زیر قبضہ علاقوں سے محروم ہوتی جا رہی عسکریت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کو دستیاب مالی وسائل بھی کم پڑتے جا رہے ہیں اور عین ممکن ہے کہ ان حالات میں یہ گروہ لیبیا، مصر اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں اپنی ذیلی شاخیں مضبوط بنانے میں مصروف ہو، جس کے لیے مقامی جہادیوں کی خونریز کارروائیوں کو ایک ’سود مند ذریعہ‘ سمجھا جا رہا ہو۔
اس سوچ کے برعکس بنگلہ دیشی وزیر مملکت برائے خارجہ امور شہریار عالم نے روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ اب تک بنگلہ دیش میں قانون نافذ کرنے والا کوئی بھی مقامی ادارہ یا غیر ملکی ایجنسی ایسے شواہد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ بنگلہ دیش میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کو کوئی وجود پایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا، ’’(داعش کی طرف سے) ان مسلح حملوں اور دہشت گردانہ ہلاکتوں کے تمام دعوے یقینی طور پر جھوٹے ہیں۔‘‘ شہریار عالم نے مزید کہا کہ ڈھاکا حکومت نے اپنے ساتھی ملکوں کے ساتھ اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ اس حوالے سے کسی متازعہ بحث میں نہیں الجھے گی، تاکہ عسکریت پسندوں کو کوئی غلط پیغام نہ جائے۔
روئٹرز کے مطابق بنگلہ دیشی وزیر شہریار عالم نے یہ بیان ایک ایسے وقت پر دیا ہے، جب ابھی چند روز پہلے ہی یورپی یونین کے ایک وفد نے یہ کہا تھا کہ بنگلہ دیش میں انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کو آج سے پہلے کبھی نظر نہ آنے والے شدید خطرات کا سامنا ہے اور ڈھاکا حکومت کو بنگلہ دیش کی بین الاقوامی ساکھ کے تحفظ کے لیے اس چیلنج پر پورا اترنا ہو گا، جس کا اسے سامنا ہے۔
مسلم اکثریتی آبادی والے جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں گزشتہ برس فروری سے اب تک کم از کم 26 افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔ 160 ملین کی آبادی والے اس ملک میں یہ 26 افراد ایسے شہری تھے، جنہیں ان کے سیکولر نظریات کی وجہ سے ہلاک کیا گیا۔ ان میں پانچ سیکولر بلاگرز، ایک پبلشر اور کم از کم دو ایسے افراد بھی شامل تھے، جو ہم جنس پرست افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوشاں تھے۔
مختلف دہشت گرد تنظیموں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے امریکا کے ’سائٹ‘ گروپ کے مطابق ان حملوں میں سے چند کی ذمے داری دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ نے قبول کی تھی جبکہ داعش کی طرف سے اب تک قتل کی ایسی 17 وارداتوں کی ذمے داری قبول کی جا چکی ہے۔ ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے بنگلہ دیش میں ایسی کسی واردات کی ذمے داری پہلی مرتبہ گزشتہ برس ستمبر میں قبول کی تھی، جس کے بعد یہ سلسلہ رکنے ہی میں نہیں آ رہا۔
اس بارے میں ملکی وزیر شہریار عالم نے روئٹرز کو بتایا، ’’داعش کے یہ دعوے ایسے ہیں، جن کے ذریعے وہ ملک میں انتہا پسندی کی لہر میں شامل ہوئے بغیر اس رجحان کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔‘‘
شہریار عالم نے مزید کہا، ’’عجیب بات تو یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش میں خونریز ی کے چند واقعات ایسے بھی ہوئے ہیں، جن کی ذمے داری بیک وقت القاعدہ اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ دونوں نے قبول کی تھی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں اب تک مذہبی انتہا پسندوں کے مسلح حملوں کے جتنے بھی واقعات پیش آئے ہیں، ان میں سے اکثر کے پیچھے دو بڑے مقامی گروپ ’انصاراللہ بنگلہ‘ اور ’جماعت المجاہدین بنگلہ دیش‘ تھے، جو اس ملک کو شرعی نظام حکومت والی ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔