بنگلہ دیش میں طلبہ کے مظاہرے جاری، موبائل انٹرنیٹ سروس معطل
18 جولائی 2024بنگلہ دیش میں آج بروز جمعرات بھی مختلف شہروں میں کوٹا سسٹم کے خلاف طلبہ کے احتجاج کا سلسلہ جاری رہا اور ان میں شریک مظاہرین کو منتشر کرنے لے لیے پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
اسی دوران حکام کی جانب سے موبائل انٹرنیٹ سروسز کی فراہمی بھی معطل کر دی گئی ہے۔
ان مظاہروں میں اب تک کم از کم چھ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں اور مظاہرین نے آج ملک گیر ہڑتال کی کال بھی دی ہے۔ پھر بھی آج دارالحکومت ڈھاکہ میں دکانیں اور دفاتر کھلے رہے تاہم سڑکوں پر بسوں کی تعداد کم رہی۔
موبائل سروسز کی معطلی کے بعد بنگلا دیش کے جنوبی شہر چٹاگانگ میں طلبہ نے ایک ہائی وے بلاک کر دی اور پولیس پر پتھراؤ کیا۔ ان کو منتشر کرنے کے لیے پولیس اہلکاروں نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
دوسری جانب موبائل انٹرنیٹ کی بندش کے حوالے سے بنگلہ دیش کے جونیئر وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی زنید احمد نے کہا، ''سوشل میڈیا پر افواہوں اور عدم استحکام کی صورتحال‘‘ کے پیش نظر ان سروسز کی فراہمی کو عارضی طور پر معطل کیا گیا ہے۔‘‘ میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حالات معمول پر آنے کے بعد یہ سروسز بحال کر دی جائیں گی۔
مظاہرے کیوں ہو رہے ہیں؟
بنگلہ دیش میں گزشتہ ماہ طلبہ نے حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمتوں کے لیے رائج کوٹا سسٹم ختم کرنے کے مطالبے کے ساتھ ان مظاہروں کا آغاز کیا تھا۔ بنگلہ دیش میں 1971ء کی جنگِ آزادی میں شریک افراد کے اہل خانہ کے لیے سرکاری ملازمتوں میں تیس فیصد کوٹا مختص ہے، جب کہ طلبہ اس کوٹا سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پیر کے روز یہ مظاہرے تب پرتشدد ہو گئے جب ڈھاکا یونیورسٹی میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں سو افراد زخمی ہوئے۔
پھر یہ احتجاجی لہر ڈھاکا کے نواح میں قائم جہانگیر نگر یونیورسٹی تک پہنچ گئی اور منگل تک یہ احتجاجی مظاہرے ملک کے کئی دوسرے علاقوں میں بھی پھیل گئے۔
اسی تناظر میں بدھ کو حکومت نے جامعات کو غیر معینہ مدت کے لیے اپنی تعلیمی سرگرمیاں معطل کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ ساتھ ہی صورتحال بگڑنے کے اندیشے کے پیش نظر جامعات میں پولیس اور نیم فوجی بارڈر گارڈر کے اہلکاروں کو بھی تعینات کر دیا گیا تھا۔
سن 2018 میں ایک عدالتی حکم نامے پربنگلہ دیش میں کوٹاسسٹم کے تحت نوکریوں کی تقسیم کو عارضی طور پر روکا گیا تھا، لیکن گزشتہ ماہ ملک کے ایک ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کوٹا نظام دوبارہ بحال کر دیا تھا، جس کے بعد طلبہ نے احتجاج کا آغاز کر دیا۔
اس کوٹا نظام کے تحت خواتین، معذور افراد اور نسلی اقلیتوں کے لیے بھی ملازمتیں مختص ہیں، تاہم مظاہرین فقط 1971ء کی جنگ میں شریک افراد کے لیے اس کوٹے کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مظاہریں کا کہنا ہے کہ اس کوٹے سے وزیر اعظم حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ کے لوگوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ یہ جماعت بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادیکی جنگ میں سرگرم تھی۔
اس حوالے سے بدھ کو حسینہ واجد نے ایک تقریر کے دوران کہا کہ ان مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے حکومت ایک عدالتی پینل تشکیل دے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ سات اگست کو سپریم کورٹ میں کوٹا سسٹم کی بحالی کے خلاف حکومت کی درخواست کی سماعت ہوگی۔ انہوں نے طلبہ سے اپیل کی کہ اس درخواست پر فیصلہ آنے تک وہ صبر کا مظاہرہ کریں۔
م ا / ش ر (روئٹرز)