بنگلہ دیش میں نرس کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے خلاف احتجاج
11 مئی 2019جس نرس کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا، اس کا نام شاہی نور اختر تانیہ تھا اور اُس کی عمر چوبیس برس تھی۔ وہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا کے ایک ہسپتال میں بطور نرس ملازم تھی۔ اُس کو اُس وقت جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنے آبائی علاقے کشور گنج کی جانب بس پر جا رہی تھی۔
تانیہ کو ریپ کے بعد چلتی بس سے نیچے پھینک دیا گیا تھا۔ کشور گنج کا شہر ڈھاکا سے ایک سو کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اس واردات میں ملوث ہونے کے شبے میں اب تک پولیس نے پانچ افراد کو حراست میں لیا ہے اور پوچھ گچھ کے ساتھ ساتھ تفتیشی عمل بھی جاری ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں بس کا ڈرائیور اور کنڈکٹر بھی شامل ہیں۔
شاہی نور اختر تانیہ کا قتل ایسے وقت میں ہوا ہے جب بنگلہ دیش میں ایک نوجوان طالبہ نصرت جہاں کو اُس وقت زندہ جلا دیا گیا تھا جب اُس نے جنسی زیادتی کے خلاف مزاحمت کی تھی۔ نصرت جہان کے واقعے کے بعد بنگلہ دیش میں خواتین کے تحفظ پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے تھے۔
انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور وکیل سارہ حسین کا کہنا ہے کہ اس وقت اس معاملے کو انتہائی ترجیحی بنیاد پر دیکھا جا رہا ہے اوران واقعات کے بعد پولیس نے تفتیشی کارروائی کے ساتھ ساتھ گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ خاتون وکیل کے مطابق بنگلہ دیشی خواتین کا مطالبہ ہے کہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہو اور ملزمان کو سخت سزا دی جائے۔
بنگلہ دیش میں خواتین کی حقوق کی تنظیم بنگلہ دیشی مہیلا پریشد نے جنسی زیادتی کے حوالے سے ایک ریسرچ رپورٹ مرتب کی ہے۔ اس کے مطابق سن 2018 میں ساڑھے نو سو خواتین کو ریپ کا سامنا رہا۔ اس تنظیم کے مطابق اس رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ رواں برس اپریل میں کم از کم چار سو ایک بنگلہ دیشی خواتین کو پرتشدد حالات کا سامنا رہا تھا۔
بنگلہ دیشی مہیلا پریشد کی جنرل سیکرٹری ملکہ بانو کا کہنا ہے کہ ایک عورت اگر کام کر سکتی ہے اور گھر سے باہر جا سکتی ہے تو پھر اُن کے وقار کی بھی ضرورت ہے۔ بانو کے مطابق انفرادی کارروائیوں سے اس صورت حال میں سدھار لانا ممکن نہیں ہے اور حکومت کے ساتھ ساتھ اجتماعی رویے میں تبدیلی ضروری ہے۔
نصرت جہاں اور شاہ نور اختر تانیہ کی ہلاکتوں کے خلاف ڈھاکا اور کشور گنج میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔