بن غازی میں خود کش حملہ: 29 فوجی ہلاک
3 اکتوبر 2014لیبیا کے بندر گاہی شہر بن غازی کے ہوائی اڈے کے قریب واقع فوجی چیک پوسٹ پر گزشتہ روز کیے گئے حملے میں طبی ذرائع نے ہلاکتوں کی تعداد 29 بیان کی ہے اور ستر زخمی بتائے ہیں۔ اِسی شہر میں خصوصی فوجی دستے، اُن فرجی بریگیڈز کے حلیف ہیں جو سابق جنرل خلیفہ حفتر کی قیادت میں اسلام پسندوں کے خلاف اپنی کارروائیاں کچھ عرصہ قبل تک زور شور سے جاری رکھے ہوئے تھے لیکن اب اُن کی قوت ماند پڑ چکی ہے۔
شہر میں اسلام پسندوں کو تقریباً غلبہ حاصل ہے اور صرف ایک ہوائی اڈہ بچا ہوا ہے جہاں فوجی اپنا ٹھکانہ بنائے ہوئے ہے۔ خلیفہ حفتر کے مسلح فوجیوں کو انصار الشریعہ کے جنگجُوؤں کی شدت سامنا ہے۔ اسی انتہا پسند گروپ کے سن 2012 میں کیے گئے مبینہ حملے میں امریکی سفیر کی ہلاکت ہوئی تھی۔
بن غازی میں لیبیا کی اسپیشل فورسز کے کمانڈر وانس بُخمادا نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ دو کاریں بارود سے لدی ہوئی تھیں اور حملہ آوروں نے انہیں شہر کے سویلین اور فوجی ہوائی اڈے کے قریب واقع چیک پوسٹ سے ٹکرا دیا۔ بُخمادا کے مطابق کاروں کے ٹکرانے کے بعد بہت زور کا دھماکا ہوا تھا۔ اسپیشل فورسز کے کمانڈر نے ابتداء میں ہلاکتوں کی تعداد تین بیان کی تھی لیکن مقامی ہسپتال کے طبی عملے نے بتایا کہ ہلاکتوں کی تعداد 29 بتائی ہے۔ اِسی شہر کے مشرقی علاقے قبا کی فوجی چیک پوسٹ پر بھی حملہ کیا گیا ہے۔ مشتبہ اسلام پسندوں نے فائرنگ کر کے چار فوجیوں کو بھی ہلاک کر دیا ہے۔
سن 2011 میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے لیبیا انتہائی سنگین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ ابھی تک جمہوری حکومت اپنا حکومتی اختیار قائم کرنے سے قاصر ہے۔ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ پارلیمنٹ حقیقی دارالحکومت طرابلس سے منتقل کی جا چکی ہے۔ طرابلس پر قابض اسلام پسندوں نے سابقہ پارلیمنٹ کو بحال کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق لیبیا میں جنگی صورتِ حال اور سیاسی غلبے کا حصول حقیقت میں معدنی دولت پر قبضے کی مسلح جدوجہد ہے۔ طرابلس میں اسلام پسندوں کو مصراتہ کے طاقتور قبائل کی حمایت بھی حاصل ہے۔
عرب دنیا کے کئی دانشور خیال کرتے ہیں کہ لیبیا ایک ناکام ریاست بن چکی ہے جب کہ مغربی اقوام اِس خطرے کا اظہار کرتی ہیں کہ ابتری کا شکار یہ ملک جلد ہی ناکام ریاست کا روپ دھار لے گا۔ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت متحارب قبائل کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ متحارب قبائل نے اپنے زور پر دارالحکومت سے اِس حکومت کی بساط لپیٹ دی ہے اور وہ اب تبروک میں ڈھیرے جمائے ہوئے ہے۔ طرابلس میں اسلام پسندوں نے متوازی پارلیمنٹ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا وزیراعظم بھی بنا رکھا ہے۔