بھارت: دہلی فسادات کی آڑ میں مسلم قیادت کی گرفتاریاں
5 مئی 2020ایک ایسے وقت جب کورونا وائرس کی وبا سے لڑنے کے لیے ملک تقریبا ًڈیڑھ ماہ سے لاک ڈاؤن میں ہے، دہلی پولیس فروری میں ہونے والے فسادات کے لیے سرکردہ مسلم شخصیات کے خلاف آئے دن مقدمات درج کر رہی ہے اور گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ماہرین کے مطابق مودی حکومت اس کی آڑ میں ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتی ہے۔
دہلی فسادات کے لیے ان سرکردہ مسلم شخصیات کو گرفتار کیا جارہا ہے جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف چلنے والی تحریک میں پیش پیش تھے۔ ان پر ملک سے بغاوت یا پھر ایسے سیاہ ترین قوانین کے تحت مقدمات درج کیے جارہے ہیں جن میں ضمانت کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ دوسری طرف پولیس ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہی ہے جن پر فسادت برپا کرنے اور اشتعال پھیلانے کے الزمات لگتے رہے ہیں۔
دہلی فسادات میں پچاس سے زیادہ افراد مارے گئے تھے جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور انہیں کے بیشتر مکانات اور کاروباری مراکز کو نذر آتش کیا گیا۔ لیکن پولیس نے فسادات کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ صفورہ زرگر اور میران حیدر، جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے عمر خالد، شرجیل بلوچ اور جامعہ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے صدر شافع الرحمن کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کے تحت گرفتار کیا ہے، جس میں ضمانت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
صفورہ تین ماہ کی حاملہ ہیں اور عدالت نے انہین ضمانت دے دی تھی لیکن حکومت کو یہ منظور نہیں تھا اس لیے جیل سے باہر آنے سے پہلے ہی ان پر انسداد دہشتگردی کے تحت مقدمہ درج کر دیا، جس میں ضمانت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ان طلبہ کے علاوہ بھی بعض ایسی مسلم شخصیات کو گرفتار کیا گیا ہے جو شہریت قانون کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ سواراج پارٹی کے رہنما اور انسانی حقوق کے کارکن یوگیندر یا دو کہتے ہیں کہ پولیس فسادات کی تفتیش کرنے کا دعوی تو کر رہی ہے، تاہم وہ تفتیش نہیں کر رہی بلکہ وہ، پارلیمان میں وزیر داخلہ امیت شاہ کے دیے گئے اس بیان کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت جمع کرنے کی کوشش میں لگی ہے جس میں انہوں نے تفتیش کے بغیر ہی فساد کی ذمہ داری بعض تنظیموں پر ڈال دی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ پس پردہ ایک، ''کھیل چل رہا ہے اور چن چن کر ان افراد کے خلاف مقدمات درج کیے جارہے اور گرفتاریاں کی جارہی ہیں جو شہریت قانون کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ اس کا مقصد فسادت کا الزام ان افراد پر ڈالنا ہے جو شہریت قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔۔۔ یہ سازش کے خلاف انکوائری ہے یا پھر انکوائری خود ایک سازش ہے۔''
حقوق انسان کے معروف کارکن روی نائر کہتے ہیں کہ حکومت ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتی ہے، وہ فسادات کا بیانیہ بدلنا چاہتی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''دنیا کو معلوم ہے کہ فسادات ہندو تنظیموں نے شروع کیا تھا لیکن حکومت دکھانا چاہتی ہے کہ اسے مسلمانوں نے شروع کیا۔ اسی کے ساتھ وہ شہریت قانون کے خلاف مہم کو بھی ختم کرنا چاتی ہے۔ یہ ایک بڑی سازش کا حصہ ہے اور دانستہ طور پر ان افراد کو خوفزہ کرنے کی کوشش ہے جو احتجاج کر رہے تھے تاکہ کوئی سامنے نہ آئے۔''
روی نائر کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن میں حکومت کو موقع مل گیا ہے۔ گرفتار شدہ افرادنہ تو قصوروار ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف کیس ثابت ہوگا لیکن ایسی دفعات لگائی گئی ہیں کہ انہیں لمبے وقفے تک جیل میں رکھا جا سکے اور انہیں سزا دینے کے لیے حکومت کا یہ ایک طریقہ ہے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رہنما اتل انجان بھی ان باتوں سے متفق ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''پولیس افسران کے سامنے بی جے کے رہنماؤں نے فساد برپا کرنے کی کھلی دھمکیاں دیں جس کے ویڈیوز موجود ہیں۔ وہ تو آزاد ہیں لیکن جن کا فساد سے کوئی واسطہ نہیں وہ جیل میں ڈالے جارہے ہیں۔ یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ اب سی اے اے کے خلاف اک نئی جد و جہد شروع کرنی پڑیگی کیونکہ تحریک تو ٹوٹ چکی ہے۔''
اتل انجان کے مطابق جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان کے لیے ایک طویل قانونی لڑائی لڑنے کی ضرورت ہوگی۔